کسی بھی انسان کو بنیادی حقوق سے محروم کردینے کا عمل تشدد کہلاتا ہے آج ترقی یافتہ دور میں بھی تشدد ودیگر گھریلو تشدد کا شکار ہیں یعنی دنیا کی ہر تیسری عورت تشدد کا شکار ہے موجودہ دور کا ہر انسان بے شمار وسائل کے جال میں جکڑا ہواہے زندگی کے بنیادی حقوق اور وسائل کی کمی نے مسائل کی اتنی زیادتی کردی ہے کہ انسان کی ذہنی جسمانی حالت حددرجہ متاثر ہوئی ہے لوگوں میں اشتعال انگیزی اور جذباتیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ بعض اوقات اپنے ہوش کھو کر کچھ ایسا کر بیٹھتے ہیں کہ بعدازاں پچھتاوا ان کا مقدر بن جاتا ہے موجودہ تلخ صورتحال کے باعث اکثر افراد مزاجا پر تشدد ہوگئے ہیں ایسے پر تشدد مزاج کے افراد اپنے ارد گرد موجود ہر اس افراد کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جو وقت کے لحاظ سے ان سے کم تر ہو معاشرے میں بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات خبر کی کہانی اور شہ سرخی کا روپ دھار کر اخبارات کی خبروں اور ٹیلی ویزن کے خبر نامے میں ہم اکثر سنتے پڑھتے اور دیکھتے ہیں مگر یہ تو صرف چند واقعات ہوتے ہیں کہ جن تک ذرائع ابلاغ کے رسائی ممکن ہوتی ہے مگر تشدد کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو رونما ہوکر بھی منظر عام پر نہیں آتے تشدد کی صورت میں ہر انسانیت پامال ہوتی ہے محض مارنے پیٹنے کو ہی تشدد نہیں کہتے بلکہ کسی بھی انسان سے اس کے حقوق چھین لینا طنزیہ اور تنقیدی جملے سنا کر یا بری طرح ڈانٹ ڈپٹ کرنا ذہنی اذیت پہنچانا کسی کے جذبات کا مزاق اڑانا یہ تمام فعل تشددکے دائرے میں آتے ہیں
گھر چار دیواری پر مشتمل سر زمین کا ایک ایسا پر سکون گوشہ ہے جو دن بھر کی تھکان اور بے ہنگم مصروفیات کے بعد انسان کو سکون اور طمانیت کا احساس بخشتا ہے مگر بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو گھر کی چار دیواری کی حدود میں ہی سارا دن گزار دیتے ہیں گھر میں رہنے والے افراد جن میں زیادہ تر گھریلو خواتین ہوتی ہیں اکثر اپنے ہی گھر کے دیگر افراد کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنتی ہے سارا دن گھر سے باہر رہنے والے جب گھر لوٹتے ہیں تو دن بھر کا جمع ہوا غصہ اور مزاج میں چڑ چڑاہٹ ان افراد کو کچھ ایسا مشتعل کردیتی ہیں کہ وہ گھر کے دیگر افارد پر چیخ کر یا مار پیٹ کر کے اپنا غصہ اتار دیتے ہیں۔جس کا زیادی تر شکار گھریلو خواتین ہوتی ہیں کیونکہ مردوں کو برتری حاصل ہے کہ معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں تو عورت کو اپنا زیر دست سمجھتے ہیں ایسے میں گھر کی حدود میں عورت ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے تو ہم اس قسم کے تشدد کو گھریلو تشدد کا نام دیتے ہیں ۔آج کل تقریبا ہر گھر میں موجود عورت گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہے جس کی بنیادی وجہ معاشی پریشانی ہے غربت اور تعلیم کی کمی ہے جس کی وجہ سے گھریلو تشدد کی شرح میں اضافہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا جارہا ہے گھریلو تشدد ایک ایسے جراثم کی مانند ہے جو ختم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جارہا ہے وہ اس طرح کہ اگر کسی بچے خصوصاً لڑکی پرورش اگر ایسے گھر میں ہورہی ہے جہاں اس کی ماں تشدد کا شکار ہے تو وہ بشہ ذہنی طور پر پسماندہ ہوجائے گا ۔وہ بچہ خود بھی تشدد پسند ہوجائے گا بے جا ضد کرنا اس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہےء اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی تمام تخلیق صلاحتیں ابھرنے کے بجائے ایسے کھٹن زدہ ماحول میں دب جاتی ہیں جو متوسط طبقے کے اکثر گھرونوں میں آج عجیب قسم کا ماحول بنی ہوئی ہے جیسا کہ گھر کا مرد جب دن بھر کے کام نمٹا کر گھر لو ٹتا ہے تو گھر آتے ہی اس کے چیخنے چلانے سے اک دم گھر کا پرسکون ماحول تبدیل ہوجاتاہے ۔جس سے گھر کی عورت اور بچے سہمے سہمے نظر آنے لگتے ہیں مرد حضرات کا چیخنا چلانا ہی گھر کی عورت کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے نا صرف یہ بلکہ چیخنے چلانے والے حضرات کبھی اتنے مشتعل ہو جاتے ہیں کہ اکثر مارنے پیٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور تشدد کا ہر وہ حربہ بروقار لاتے ہیں جس سے عورت کی جان تک چلی جاتی ہے
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined