ہرویس نے بی بی سی ٹرینڈنگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اربوں ڈالر مالیت کی ایک کمپنی نے ایک مسلمان عورت کو دکھا کر ترقی پسند ہونے کا تاثر دیا ہے۔‘
صرف پیپسی واحد کمپنی نہیں جس نے خواتین کے حجاب کو اجاگر کیا ہو۔ حال ہی میں نائیکی نے بھی خواتین کھلاڑیوں کے لیے حجاب ڈیزائن کیا جو سنہ 2018 سے دکانوں پر دستیاب ہو گا۔ ایچ اینڈ ایم نے اس حجاب کے اشتہار میں پہلی مسلمان ماڈل کو استعمال کیا جبکہ کئی دوسرے برانڈزاور لیبلز بھی ’رمضان کولیکشن‘ کے نام سے اشتہارات جاری کرتے رہے تاکہ مسلمان گاہکوں کو متوجہ کیا جا سکے۔
ہرویس کہتی ہیں کہ ’مسلمان خواتین کو دکھا کر یہ کمپنیاں بتانا چاہتی ہیں کہ وہ ترقی پسند ہیں۔‘
حجاب کرنے والی خواتین کے لیے نام نہاد حجابی فیشن بلاگرز اور میک اپ سکھانے والے بھی موضوعِ بحث ہیں۔
ان کے لاکھوں ناظرین ہیں اور انہیں شیئر کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض خواتین کہتی ہیں کہ ان پر فیشن ایبل دکھنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور یہ بعض کے لیے سر ڈھانپنا چھوڑنے کی وجہ بھی ہے۔
ان خواتین کا خیال ہے کہ ایک مقدس چیز تجارتی اشتہارات میں مجروح ہو رہی ہے۔ ایک نئے آن لائن میگزین ’این ادر لینز‘ کی ایڈیٹر خدیجہ احمد نے اپنی ذاتی کہانی لکھی کہ اس طرح انھوں نے دو سال تک حجاب پہنا اور اس کے بعد اسے نہ پہننے کا فیصلہ لیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سوشل میڈیا اور اشہتارات میں خواتین کو حجاب پہنے دیکھ کر خود پر اچھا دکھائی دینے کا دباؤ محسوس کرتی تھیں۔
’میرا نہیں خیال کہ برانڈز ہمیں فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ ہمیں اپنی شناخت کے لیے بڑی یا مقبول کمپنیوں کی توثیق کی ضرورت نہیں۔ ‘
خدیجہ احمد کا کہنا تھا’یہ مسلمان خواتین کی کوئی مدد نہیں کر رہا بجائے اس کے لیے حجاب پہننے والے کم ہو رہے ہیں۔ میں اسے عبادت سمجھتی ہوں۔‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر سوشل میڈیا