طلاق طلاق طلاق۔ اب یہ گونج مسلم شادی شدہ خاتون کے لیے خوف نہیں بلکہ ان الفاظ کا استعمال کرنے والے مسلم شوہر کے لیے جیل کا راستہ بن سکتی ہے۔ سنہ 2017 میں سپریم کورٹ نے آخر مسلم شادی شدہ خاتون کو طلاق ثلاثہ کی لعنت سے نجات دلوا دی۔ شاہ بانو نے طلاق کے بعد اپنے شوہر سے نان و نفقہ کی جو جدوجہد تقریباً 40-45 برس پہلے شروع کی تھی اس جدوجہد نے سنہ 1984 میں طلاق ثلاثہ کے خلاف ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ کسی بھی قوم میں سماجی تبدیلی کوئی آسان بات نہیں ہوتی۔ وہ بھی اگر عورت کے حقوق کا مسئلہ ہو تو بڑے سے بڑے کھلا ذہن رکھنے والا مرد بھی دامن بچا کر نکلنے کی فکر کرتا ہے۔ چنانچہ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر بھی یہی ہوا۔ لگ بھگ پورا مسلم سماج مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پرچم تلے طلاق ثلاثہ کا حق بچانے کے لیے ایک دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے 22 اگست 2017 کو ایک تاریخی فیصلے میں طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دے دیا اور اس طرح طلاق طلاق طلاق کو اب مسلم سماج سے طلاق مل گئی۔
طلاق ثلاثہ کے خلاف جدوجہد میں ان مسلم خواتین کا اہم رول رہا جو سماجی دباؤ کے باوجود اس معاملے میں قانونی چارہ جوئی میں لگی رہیں اور آخر کامیاب ہوئیں۔ اس کامیابی کی اہمیت اس لیے اور بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اب ہندوستانی مسلم خواتین اپنی زندگی میں ایک نمایاں مثبت تبدیلی کے لیے کھڑی ہو چکی ہیں۔ ایسا صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ سعودی عرب تک میں ہو رہا ہے جہاں جلد ہی عورتیں سڑکوں پر گاڑیاں چلاتی نظر آئیں گی۔ ہندوستان میں تو مسلم خاتون ڈاکٹر انجینئر سے لے کر نرس اور پٹرول پمپ پر کھڑی ہو کر پٹرول بیچنے سے لے کر ہوائی جہاز تک اڑا رہی ہیں۔
طلاق ثلاثہ کی کامیاب جدوجہد کے بعد اب یہ طے ہے کہ مسلم خواتین کو اب شریعت کے نام پر بھی چہار دیواری کے اندر قید نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ محض مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ پورے سماج میں ایک انقلاب کی دستک ہے جس کا سہرا مسلم خواتین کے سر جاتا ہے۔ اس لیے سنہ 2017 کو مسلم خواتین کا سال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined