شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں جاری عوامی احتجاج کچھ ایسی صورت حال اختیار کر چکا ہے جو ملک نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ دہلی کے شاہین باغ کو ملک ہی نہیں دنیا میں قوت نسواں کی علامت بن کر منظر عام پر آیا ہے۔ دریں اثنا، مسلم لڑکیوں نے اپنی قابلیت، قوت گفتار اور زبردست اعتماد سے ان لوگوں کے منہ بند کر دیئے ہیں جو اکثر مسلم خواتین کی آزادی کو لے کر مسلم طبقہ پر نشانہ لگاتے رہتے ہیں۔
Published: undefined
مسلم بچیاں ملک بھر میں جاری احتجاج کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں اور دہلی سے لے کر علی گڑھ تک اور جے پور سے لے کر حیدر آباد تک سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔ یہ لڑکیاں آج ریڈیو سے لے کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر مزاحمت کی علامت بن گئی ہیں اور انہیں نہ تو اپنے خیریت کی پروا ہے اور نہ ہی کسی لاٹھی یا ڈنڈے کا خوف، اُمت کی ان غیور بچیوں کو اپنے خاندانوں سے بھی پوری حمایت مل رہی ہے۔
Published: undefined
افرین فاطمہ، وردہ بیگ اور تزئین جنید بھی ایسی ہی انقلابی لڑکیوں میں شامل ہیں جو احتجاج میں سرکردہ کردار ادا کر کے مزاحمت کا چہرہ بن چکی ہیں۔
Published: undefined
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے عبد اللہ گرلز کالج کی صدر رہ چکی آفرین فاطمہ فی الحال جے این یو (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) کی کونسلر ہیں۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران اے ایم یو، جامعہ اور جے این یو کے طلبہ و طالبات پر تشدد کے بعد ان تینوں یونیورسٹیوں کے طلبہ آج شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ آفرین جیسے اسٹوڈنٹ لیڈران نے ان تینوں یونیورسٹیوں کے طلبہ کے درمیان پُل کا کام کیا ہے۔ اب ان تینوں اداروں کے طلبہ کئی مرتبہ مشترکہ طور پر احتجاج کے لئے سڑکوں پر اتر چکے ہیں اور آفرین فاطمہ ایک درجن سے زیادہ جلسوں سے خطاب کر چکی ہیں۔
Published: undefined
آفرین فی الحال چنئی میں ہیں، ان کا کہنا ہے ’’حکومت مزاحمت کاروں کو ڈرانے کے لئے تمام حربے اختیار کر رہی ہے لیکن میرے دادا جان نے کہا کہ بیٹا خوفزدہ نہ ہونا۔‘‘ آفرین کے مطابق، یہ لڑائی کچھ حاصل کرنے کی نہیں ہے بلکہ وجود کی بقا کی لڑائی ہے۔ ملک آمریت کی طرف گامزن ہے، ہم اگر اب خاموش رہ گئے تو آنے والی نسلوں کو اپنا چہرہ نہیں دکھا پائیں گے۔ ہمیں زندگی اور موت کی پروا نہیں ہے، بلکہ ملک اور اس کے دستور کی فکر ہے۔‘‘
Published: undefined
اے ایم یو سے وکالت کی تعلیم حاصل کر رہیں وردہ کا تعلق نوابوں کے شہر رام پور سے ہے۔ یونیورسٹی میں 9 دسمبر کے بعد سے جتنے بھی احتجاج ہوئے ہیں وردہ ان سبھی میں پیش پیش نظر آئیں۔ ایسے وقت میں جب یونیورسٹی کے لڑکوں پر سخت کارروائی کی جا رہی ہے تو وردہ کی ٹیم نے محاذ سنبھال لیا۔ لڑکیوں نے احتجاج کا منفرد طریقہ اختیار کرتے ہوئے خود کو زنجیروں میں قید کر کے احتجاج کیا، اس میں بھی وردہ شامل تھیں۔ اس کے علاوہ مشعل جلوس اور 25 ہزار طلباء کی بھوک ہڑتال میں بھی انہوں نے شرکت کی۔
Published: undefined
وردہ بیگ نے کہا، ’’میرا خاندان میری حمایت میں ہے۔ میرے امی-ابو کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی بہت ضروری ہے۔ حکومت کو اس کالے قانون کو واپس لینا ہی ہوگا۔‘‘ وردہ نے مزید کہا، ’’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ سب بھی کریں گے۔ ہم تو صرف تعلیم حاصل کرنے آئے تھے اور اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں۔ اب چونکہ قوم پر مشکل آن پڑی ہے تو آواز اٹھانا لازمی ہو گیا۔‘‘
Published: undefined
مراد آباد سے تعلق رکھنے والی تزئین جنید فرّاٹے دار انگریزی بولتی ہیں اور بین الاقوامی معاملات پر مہارت رکھتی ہیں۔ وہ بہترین مقرر ہیں اور مجمع دل تھام کر ان کی بات سنتا ہے۔
Published: undefined
تزئین کے مطابق، ’’اب یہ طے ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جارہا ہے۔ مجھے اپنی کوئی فکر نہیں ہے، تکلیف اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم پر بھی کچھ لوگ جشن مناتے ہیں۔‘‘ فسطائی قوتوں نے پہلے سماج میں نفرت پھیلائی اور اب یہ لوگوں کے حقوق چھیننے کے درپے ہیں۔
Published: undefined
تزئین کا کہنا ہے ’’حکومت اور پولیس لڑکوں کے ساتھ زیادتیاں کر رہی ہیں۔ لہذا اس بار محاذ ہم بیٹیوں نے سنبھالا ہے۔ ہمیں نہ کوئی ڈر ہے اور نہ ہی انجام کی پروا۔ حکومت کے ہر غلط فیصلے کے خلاف ہم آواز اٹھائیں گے۔ اس مرتبہ انقلاب ہم بیٹیاں ہی لائیں گی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز