از: ایم افضل
سری نگر: شہر سری نگر کے مضافاتی علاقہ خواجہ باغ ملورہ سے تعلق رکھنے والی قوت گویائی سے محروم جوان سال خاتون رخسانہ گھاس کی چٹائیاں بن کر نہ صرف اپنے عیال کی کفالت کر رہی ہے بلکہ کشمیر کی ایک قدیم اور روایتی دستکاری کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔
Published: undefined
ایک بوسیدہ مکان میں رہائش پذیر قوت گویائی سے محروم رخسانہ نے اپنے نازک کندھوں پر ایک سالہ بیٹے اور عمر رسیدہ والد کی کفالت کی ذمہ داریوں کا بوجھ سال گزشتہ کی اُس گھڑی سے اٹھائے ہوئی ہے جس گھڑی ان کا شوہر کینسر کے ساتھ سالہا سال سے برسر پیکار رہنے کے بعد بالآخر زندگی کی جنگ ہار گیا۔
Published: undefined
رخسانہ اگرچہ زبان سے اپنی روداد بیان نہیں کر پا رہی ہے لیکن ان کی خاموشی اور اداسی ان کے وجود میں پنہاں داستان حزن و غم اور بے کسی اور کسمپرسی کے عالم کا مظہر ہیں۔ رخسانہ کے ہمسایوں کا کہنا ہے کہ رخسانہ قوت گویائی اور ایک خاتون ہونے کے باوصف زندگی کے تمام آلام و مصائب کا بہادری اور پامردی سے مقابلہ کرکے اپنے ایک سالہ بیٹے اور معمر والد کی پرورش و کفالت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کررہی ہے۔
Published: undefined
رخسانہ کا دن اپنے بیٹے کو دودھ پلانے اور والد کی خاطر تواضع کے بعد گھاس کی چٹائی بننے سے شروع ہوتا ہے۔ اپنے بیٹے کو چارپائی کے ساتھ رکھ کر رخسانہ روٹی کی سبیل کے لئے گھاس کی چٹائی بننے میں مصروف ہوکر دنیا ومافیہا سے اس قدر بیگانہ اور لاتعلق ہوجاتی ہے کہ بہتر سے بہتر گھاس کی چٹائی تیار کرنے میں ہی ان کی تمام کائنات سمٹ جاتی ہے۔
Published: undefined
رخسانہ کو ایک 8 فٹ لمبی چار فٹ چوڑی چٹائی بننے میں پورا ایک دن لگتا ہے جس کو وہ ڈھائی سو سے تین سو روپے میں فروخت کرکے گھر کا چولھا جلانے کی سبیل کر پاتی ہے۔ گھاس کی چٹائیاں تیار کرنے کے لئے آس پاس یہاں تک کہ دور افتادہ علاقوں کے لوگ بھی ان کے گھر پر دستک دیتے ہیں۔
Published: undefined
رخسانہ کے گاہکوں کا اس بات پر یقین محکم ہے کہ 'قدرت نے رخسانہ کے ہاتھوں میں جادو بھرا ہے، ان کے ہاتھ کی ہر چٹائی ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ قدرت نے ان کی گویائی کی قوت بھی ان کے ہاتھوں میں ہی بھری ہے'۔
Published: undefined
خواجہ باغ مالورہ سے تعلق رکھنے والی زون اور رحم دید نامی دو عمر رسیدہ خواتین بھی گزشتہ چار دہائیوں سے گھاس کی چٹائیاں بننے کے پیشہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوصف بھی ان کے چہروں پر تھکن کے آثار کہیں بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔
Published: undefined
ان کا کہنا ہے کہ 'ہمارے پاس کمانے کا کوئی دوسرا ذریعہ ہی نہیں ہے جس طرح باقی خواتین پشمینہ کا کام کرتی ہیں اور اپنا روزگار چلاتی ہیں اسی طرح ہم گھاس کی چٹائیاں بن کر چار پیسے کمانے کی سبیل کرتے ہیں'۔
Published: undefined
زندگی گزارنے کے بدلتے معیاروں کے تناظر میں زون اور رحم دید بھی آرام دہ اور جدید طرز زندگی اختیار کرنے کے خواب دیکھ رہی ہیں، اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتی ہیں، عالی شان مکانوں میں رہنا چاہتی ہیں، اپنے عیال کو معیاری غذا اور بہتر لباس فراہم کرنا چاہتی ہیں لیکن محدود وسائل ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہونے دے رہے ہیں۔ ان عمر رسیدہ خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے انہیں کوئی امداد مل رہی ہے نہ ان کی بہبودی کے لئے کوئی اسکیم متعارف کی جارہی ہے۔
Published: undefined
زون اور رحم دید کا کہنا ہے کہ 'خواجہ باغ علاقہ گھاس کی چٹائیاں بننے کے لئے اطراف و اکناف میں مشہور تھا اور یہاں رہائش پذیر تمام 2 سو گھرانے اسی پیشے سے وابستہ تھے لیکن گھاس کی چٹائیوں کی مانگ روبہ انحطاط ہونے کے پیش نظراب صرف بیس سے پچیس گھرانے ہی اس پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں جن کے اقتصادی حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں'۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اس پیشے سے وابستہ تمام گھرانے بوسیدہ اور پرانے مکانوں میں ہی رہائش پذیر ہیں۔
Published: undefined
اس پیشے سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ گھاس کی چٹائی بنانے میں ایک مخصوص قسم کے گھاس کی ضرورت پڑتی ہے جس کو نزدیکی گاؤں کے کسانوں سے خریدا جاتا ہے۔ یہ گھاس قدرتی طور پر بنجر زمین پر اگتی ہے۔
Published: undefined
ان کا کہنا ہے کہ ماضی قریب تک خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی بڑی تعداد میں گھاس کی چٹائیاں بنتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ضروریات زندگی میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا جس کے نتیجے میں بیشتر لوگ اس پیشے سے دستبردار ہوئے اور دوسری قسموں کی محنت مزدوری کرکے روزی روٹی کمانے لگے اس طرح ان کے طرز حیات میں بہتری واقع ہوئی اور وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے اہل ہوگئے۔
Published: undefined
گھاس کی چٹائیاں بننے سے وابستہ گھرانوں کے افراد نے کہا کہ لداخ سے بھی انہیں گھاس کی چٹائیاں تیار کرنے کے لئے فرمائشیں آتی ہیں۔ جہاں وہ ان چٹائیوں کو سرما کے دوران فرش پر بچھاتے ہیں اور وہ ان چٹائیوں کو مختلف میوہ جات خاص طور پر خوبانیاں سکھانے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
Published: undefined
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وادی میں بھی ماضی قریب تک تمام مکانوں کے فرش گھاس کی چٹائیوں سے ہی سجے ہوتے تھے لیکن زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہاں جہاں ایک طرف مکینوں کے طرز حیات میں تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں مکانوں کے فرش پر بھی قالین اور دوسرے قسم کی میٹنگ بچھنے لگی جس سے گھاس کی چٹائیوں کی مانگ انحطاط پذیر ہوئی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز