یہ بات اکثر کہی جاتی ہے اور بہت عام بھی ہے کہ خاتون کے بغیر گھر کا تصور کیسا اور گھر کو گھر بنانے کے لئے باقاعدہ مرد اور خاتون کو الگ الگ رواجوں کے مطابق شادی کے بندھن میں باندھا جاتا رہا ہے۔ سماج کا ایک معمولی طبقہ اس کا منکر بھی ہے، لیکن حقیقت میں ایسا ہی لگتا ہے کہ خاتون اور مرد دونوں ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔
Published: undefined
دنیا کے کئی حصوں میں خاتون کی ذمہ داری گھر سنبھالنے کی رہی تو کہیں ان سے کھیتوں میں بھی کام کروایا جاتا رہا ہے اور کہیں سماج کے ہر کام میں حصہ دار بھی بنایا، لیکن دنیا کے کسی بھی سماج کی کبھی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ نظر انداز کیا بھی کیسے جا سکتا ہے کیونکہ پوری دنیا کی آدھی آبادی جو ہے، دنیا کے جس حصہ میں بھی اس آبادی کو نظر انداز کیا گیا یا ان کی صلاحیتوں سے پوری طرح استفادہ نہیں اٹھایا گیا دنیا کا وہی حصہ دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔
Published: undefined
آج کل خواتین کے تعلق سے افغانستان کی نئی حکومت کے فرمان اور بیانوں پر پوری دنیا میں بحث اور تبصرے ہو رہے ہیں۔ ایسا ہونا لازمی ہے، کیونکہ بیس سال پہلے جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی تب کے حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے سماج کے ہر ذی شعور طبقہ میں فکر لاحق ہونا ایک فطری بات ہے۔ اس مرتبہ طالبان نے اپنے رویہ میں تبدیلی کا اظہار کیا اور کہا کہ خواتین گھر سے باہر بھی کام کر سکتی ہیں اور لڑکیاں تعلیم بھی حاصل کر سکتی ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سوال ہوتا ہے کہ کسی کو بھی کسی کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق کس نے دیا ہے، لیکن طالبان کی اس معمولی تبدیلی کا بھی لوگوں نے خیر مقدم کیا۔
Published: undefined
اب طالبان کی جانب سے خواتین کے حصول تعلیم اور دفتر میں کام کرنے کے لئے کچھ شرائط کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ پہلے یہ بیان آیا کہ خواتین وہی کام کر سکتی ہیں جس کی شریعت میں اجازت ہو، پھر یہ اعلان آیا کہ خواتین وزیر نہیں ہو سکتیں اور پھر یہ اعلان آیا کہ لڑکیاں اور لڑکے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ اب پتہ نہیں کس ملک کی شریعت کو طالبان اسلامی شریعت مانتے ہیں کیونکہ سعودی عرب میں اصلاحات کا دور دورہ ہے اور وہاں خواتین کو اب ہر طرح کے حق دیئے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان میں خواتین کو ہر طرح کی آزادی ہے اور وہاں تو خاتون وزیر اعظم بھی رہ چکی ہیں۔ ترکی میں خواتین کے پاس تمام حقوق ہیں، انڈونیشیا، ایران وغیرہ وہ ممالک ہیں جہاں خواتین کو اس طرح کی کسی بھی بندش یا شرائط کا سامنا نہیں ہے۔
Published: undefined
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان میں غیر ملکی جارحیت کو ختم کرنے میں مذہبی جذبہ کا بہت اہم دخل رہا ہے اور اس دوران کہیں نہ کہیں اس جذبہ میں شدت بھی آئی ہے اور اس حقیقت سے بھی کوئی طالبانی رہنما انکار نہیں کر سکتا کہ طالبان کی اس کامیابی میں بھی خوایتن کا اہم کردار رہا ہے۔ طالبان کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک کی آدھی آبادی کو نطرانداز نہ کرے اور ان کو ہر میدان میں قومی کردار ادا کرنے کے یکساں مواقع فراہم کریں۔ آج اگر طالبان نے اپنی طاقت کے نشہ میں ایسے فیصلے لئے جس سے ان کی اپنی آدھی آبادی گھروں میں قید ہو کر رہ جائے گی تو اس سے نہ صرف باہر سے ان کو تنقید کا شکار ہونا پڑے گا بلکہ خود ان کی خواتین اور ان کی بچیاں ایک بڑی روشنی سے محروم رہ جائیں گی۔
Published: undefined
کسی بھی حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی سیاسی جماعت کا نظریہ کچھ بھی ہو لیکن حکومت کا نظریہ صرف اور صرف ایک ہونا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ عوام کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں اور سب کو یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔ جو ریاست اپنے عوام کا خیال رکھیں گے اور ان کے لئے کام کریں گے وہی حقیقی مذہبی ریاست ہوگی۔
Published: undefined
کوئی بھی حکومت اگر اپنی پچاس فیصد صلاحیتیں صرف اپنے نظریہ کو تھوپنے میں لگائے گی تو باقی پچاس فیصد سے عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ عوام کو سہولیات پہنچانے کے لئے سو فیصد کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی بھی حکومت کے ذریعہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود ہی اس کا سب سے بہترین اور کامیاب نظریہ ہے۔ اس لئے طالبان کو جو موقع ملا ہے اس کا وہ صحیح استعمال کرے اور اپنے ملک کی آدھی آبادی کو تمام یکساں مواقع فراہم کرے، تاکہ افغان بچیاں بھی پوری دنیا میں دیگر بچیوں کی طرح نام روشن کرسکیں۔ اگر ایسا نہیں کیا تو بیس سال پہلے والے طالبان اور آج کے طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined