ویڈیوز

ویڈیو: شاہین باغ سے سنگھو بارڈر تک، مودی حکومت کے خلاف بلند ہوتی احتجاج کی آواز

سنگھو بارڈر کا مظاہرہ شاہین باغ سے کئی گنا زیادہ رقبہ میں پھیلا ہوا ہے اور پوری جگہ کو دیکھنے کے لئے کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے

تصویر / سوشل میڈیا اور Getty Images
تصویر / سوشل میڈیا اور Getty Images 

کورونا وبا کے پھیلنے سے پہلے شاہین باغ کے مظاہرہ کی رپورٹنگ کرنے کے لئے شاہین باغ گیا تھا اور کل سنگھو بارڈر پر جانے کا موقع ملا جہاں کسان نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کوئی لاکھ کہے کہ کسانوں کے اس مظاہرہ میں بھی وہی لوگ ہیں یا پیچھے سے ان کا ہی ذہن کام کر رہا ہے جو شاہین باغ کے مظاہرہ کے پیچھے تھے، لیکن دونوں مظاہروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہاں مگر ایک یکسانیت ضرور ہے کہ دونوں مظاہرے مرکزی حکومت کے دو الگ الگ قوانین کے خلاف ہیں۔

Published: 27 Dec 2020, 8:10 PM IST

بہرحال سنگھو بارڈر پر جا کر ایک بات کا تو اندازہ ہوا کہ یہاں پرمظاہرین کی بڑی تعداد میں سے زیادہ تر کا تعلق ہریانہ اور پنجاب سے ہے۔ شاہین باغ اور سنگھو بارڈر پر مظاہرین کا جوش برابر ہے بس فرق یہ ہے کہ شاہین باغ میں چونکہ جامعہ کے ہنگامہ کے بعد مظاہرہ شروع ہوا تھا اس لئے وہاں تعلیم کا تڑکا لگا ہوا تھا، جہاں ہر جانب تعلیم کا رنگ کسی نہ کسی شکل میں نظر آ رہا تھا۔ سنگھو بارڈر پر چونکہ کسان احتجاج کر رہے جن کو ’ان داتا‘ کہا جاتا ہے اور وہ بھی ملک کے اس خاص خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کی زمینیں زرخیز ہیں اور وہاں کا کسان خوشحال ہے اس لئے یہاں خدمت کے جذبہ اور کھانے، پینے اور ادویات کی افراط صاف نظر آتی ہے۔

Published: 27 Dec 2020, 8:10 PM IST

سنگھو بارڈر پر شاہین باغ کی طرح الگ الگ سے لائبریری نہیں دکھے گی، کوئی بڑا سا انڈیا گیٹ نہیں دکھے گا، کہیں پر کوئی بچوں کو پڑھاتا ہوا دکھائی نہیں دے گا اور نہ ہی کہیں قومی ترانوں کی گونج نظر آئے گی، لیکن یہاں بڑی تعداد میں طبی عملہ خدمت کرتا نظر آئے گا، ہر پچاس میٹر پر ایک مفت ادویات فراہم کرنے والا اسٹال نظر آ جائے گا۔ ادویات کے ان اسٹالس کے بیچ مختلف تنظیموں کے ذریعہ مفت کھانے کا انتظام نظرآجائے گا۔ کہیں مونگ پھلی تقسیم ہو رہی ہوں گی، تو کہیں دیسی گھی کے بنے لڈو، تو کہیں پکوڑے اور کہیں بریڈ پکوڑے۔ پیزا کے لئے جہاں لمبی لائن لگی ہوئی نظر آ جائے گی وہیں سردیوں کے لئے ضروری کپڑے، کمبل اور لحاف بھی تقسیم ہوتے نظر آجائیں گے۔

Published: 27 Dec 2020, 8:10 PM IST

سنگھو بارڈر کا مظاہرہ شاہین باغ سے کئی گنا زیادہ رقبہ میں پھیلا ہوا ہے اور پوری جگہ کو دیکھنے کے لئے کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ کسان جہاں ٹرکوں، ٹیمپو، ٹرالی، کیمپوں اور جدید ٹینٹوں میں آرام کرتے نظرآ ئیں گے وہیں بڑی تعداد میں مرکزی اسٹیج کے سامنے تقاریر سنتے نظر آئیں گے اور پورے مظاہرہ گاہ میں حکومت کے خلاف اور کسان مزدور اتحاد کے نعرے لگاتے نظر آئیں گے۔

Published: 27 Dec 2020, 8:10 PM IST

مظاہرہ میں ہر عمر اور ہر طبقہ کے لوگ سنگھو بارڈر پر نظر آئیں گے جو مرکزی حکومت اور وزیر اعظم کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار میں کوئی کنجوسی کرتے نظر نہیں آتے، بلکہ یوں کہیے کہ وہ کسی مصلحت پسندی سے کام نہیں لیتے نظر آئیں گے اور کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے نظر آئیں گے۔ یہاں پر جہاں جھریاں پڑے غریب بزرگ کسان نظر آئیں گے وہیں بے انتہا خوشحال کسان بھی بڑی تعداد میں نظر آئیں گے جن کی کھڑی مہنگی کاریں اپنے آپ میں خود بولتی ہیں۔ یہاں جگہ جگہ گھوڑے اور ان کے اصطبل نظر آ جائیں گے جن کا شاہین باغ میں تصور ہی نہیں تھا۔ سکھ کسان اپنے گھوڑوں پر یہاں آئے ہوئے ہیں۔

Published: 27 Dec 2020, 8:10 PM IST

سنگھو بارڈر پر احتجاج کر رہے کسانوں نے کہیں وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے پتلہ بنائے ہوئے ہیں تو کہیں ایک کسان بیڑیاں پہنے کھڑا ہے تو کہیں نوجوان لڑکے حکومت کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں اور گانے گا رہے ہیں۔ ان نوجونوں کو سننے کے لئے خوب بھیڑ جمع ہو جاتی ہے۔ اتنی بھیڑ میں صفائی کا اہتمام کرنے والے کسانوں کو اپنے کام میں دشواری ضرور ہوتی ہے لیکن وہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ کہیں کنگنا رنوت کے خلاف پوسٹر نظر آتے ہیں توکہیں دشینت چوٹالہ کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوتا ہے کہ ’گمشدہ کی تلاش‘۔

Published: 27 Dec 2020, 8:10 PM IST

شاہین باغ اور سنگھو بارڈر کے مظاہروں میں جہاں سماج کے دو الگ الگ رنگ نظر آتے ہیں وہیں ایک حقیقت چیخ چیخ کر اپنی موجودگی درج کرا رہی تھی اور وہ تھا دونوں جگہ پر آنے والے مظاہرین کا جذبہ۔ ایک ماہ سے زیادہ مدت سے اپنا گھر بار چھوڑ کر سردیوں میں پڑے ان کسانوں کے جذبہ میں کسی قسم کی کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ میرے خیال سے حکومت کو اپنی پالیسیوں کا پھر سےاحاطہ کرنا چاہیے اور اسے سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہیے کہ اگر عوام نے اتنی بڑی اکثریت انہیں دی ہے تو وہ ملک کی ترقی اور بھائی چارے کے فروغ کے لئے دی ہے اور اگر سماج کا کوئی بھی طبقہ حکومت کے کسی قانون سے ناخوش ہے تو اسے قانون پر ازسر نو غور کرنا چاہیے۔ ضد کی سیاست کبھی بھی سودمند ثابت نہیں ہوتی۔ دور اندیشی سے کام لینے کی ضرورت ہے، دلوں کو جیتنے کے لئے تمام طبقوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اگر کسانوں کے احتجاج کو بھی خطہ اور مذہب کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی تو ملک کے لئے نقصاندہ ہوگا۔ حکومت کے تین اتحادی ساتھ چھوڑ چکے ہیں، اس پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔

Published: 27 Dec 2020, 8:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 27 Dec 2020, 8:10 PM IST