پرانی دہلی میں اتوار کی رات سے لے کر منگل کی شام تک جو کچھ ہوا وہ بہت تکلیف دہ تھا ۔ اس واقعہ نے ملک کے مستقبل پر سوال کھڑے کر دئے۔
کیا آج ۲۰۱۹ میں ہمارے بیچ ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرتیں موجود ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے کوئی بھی شخص ذرا سی بات پر صرف مسلمان ہو جائےاور کوئی بھی شخص ایک لمحے میں ہندو ہو جائے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم ۴۷ کے دور میں رہ رہے ہوں جب انسانیت کی جگہ مذہبی جنون نے لے لی تھی ۔کیا آج بھی ہمارے معمولی جھگڑے فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کر سکتے ہیں ۔ اس واقعہ نے تو یہ ہی ثابت کر دیا ہے۔ دو افراد کے درمیان اسکوٹی کی پارکنگ کو لےکر شروع ہوئی معمولی سی کہا سنی دیکھتے ہی دیکھتے ایک فرقہ وارانہ جھگڑے میں بدل گئی اور پھر دونوں جانب سے نعرے بازی کا دور شروع ہو گیا اور یہ سب ملک کی راجدھانی میں ہوا۔ ہم کس دور میں رہ رہے ہیں ، ہمارامعمولی جھگڑادو قوموں کے ٹکراؤ میں بدل جائے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں ۔ کیا ہم نے یہ ہی ترقی کی ہے کہ کوئی بھی ہمارے مذہبی عقائد اور جزبات کو کیسے بھی استعمال کر لے ۔ کیا ہم غصہ میں اتنے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں کہ ہم یہ بھول جائیں کہ مندر اور مسجد عبادت اور احترام کے مقام ہیں یہ پتھراؤ اور غصہ نکالنے کے مقامات نہیں ہیں۔ کیا علاقہ سے باہر کے لوگ اور شدت پسند تنظیمیں ہماری معمولی سی آگ میں گھی ڈال کر تماشہ دیکھ سکتی ہیں ؟
زبردست ہنگامہ اور تناؤ کے بعد کچھ افراد کی کوششوں کی وجہ سے حالات پر قابو پا لیا گیا اور علاقہ میں بظاہر امن قائم ہو گیا لیکن کیا ہم اس کو امن کہہ سکتے ہیں ۔۔۔بالکل نہیں ۔ جب تک ہمارے مذہبی جنون اور نفرتوں کی جگہ انسانیت نہیں لے لیتی تب تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امن قائم ہو گیا ہے۔ ہر ذی شعور کو معلوم ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے دم توڑتی مذہبی نفرتیں سر اٹھانے لگی ہیں اور ان کا سر اٹھانا سماج میں حقیقی امن کے لئے سب سے بڑاخطرہے ۔ سماج کا کوئی بھی فرد جو حقیقی معنوں میں مذہبی ہے تو پھر یہ نفرتیں سر اٹھا ہی نہیں سکتیں کیونکہ مذہب نہیں سکھاتا آ پس میں بیر رکھنا ۔
Published: 03 Jul 2019, 9:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Jul 2019, 9:10 PM IST