اس سے پہلے کسی ہندی سیریل نے اتنا بے چین نہیں کیا جتنا ’لیلیٰ‘ نے کیا۔ یوں تو ویب سیریز کا چلن کچھ سال پہلے ہمارے ملک میں شروع ہو گیا تھا اور کئی سیریل موضوعِ بحث بھی بنے، لیکن ویب سیریز دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ ایک تو غنیمت یہ کہ اس میں ساس-بہو نہیں ہے، نہ ہی میک اَپ سے پُتی ہوئی عورتیں یا پھر گھٹیا اور بچکانی کامیڈی کرتے اداکار۔
Published: 26 Jun 2019, 5:10 PM IST
ایک خوفناک ماحول ہے جو پہلے کچھ ہی منٹوں میں آپ کو گھیر لیتا ہے۔ بھارت ’آریہ ورت‘ ہو چکا ہے، لوگوں کی بستیاں مذہب اور ذات کے نام پر تقسیم ہو چکی ہیں۔ دو الگ ذات یا مذہب والی شادیوں سے پیدا ہوئے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر دیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ ظلم کی شکار ہیں خواتین جنھیں کسی بھی ’جرم‘ کے لیے، اپنی عزت بچانے کے لیے بھی ’شدھی کرن‘ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو اپنے آپ میں اتنا تکلیف دہ ہے کہ وہ جیتے جی مر جائیں۔ پانی کے لیے لوگ لڑ رہے ہیں اور پینے کا پانی صرف اے ٹی ایم پر ہی دستیاب ہے۔ محبت، امن اور چین کی کوئی جگہ نہیں۔ ہر شخص ایک دوسرے کو شبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
Published: 26 Jun 2019, 5:10 PM IST
ایسی دنیا میں داخل ہوتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جیسے ہی پہلا ایپی سوڈ ختم ہوتا ہے، آپ شکر مناتے ہیں کہ ہماری دنیا، ہمارا سماج ایسا نہیں۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟
Published: 26 Jun 2019, 5:10 PM IST
دفتر میں اپنے ایک ساتھی سے بات کرتے ہوئے میں نے جب کہا کہ ہم اگر ابھی نہیں سنبھلے تو جلد ہی ہمارا سماج بھی ایسا ہو جائے گا جیسا کہ اس سیریل میں دکھایا گیا ہے، تو اس ساتھی کا جواب اندر تک جھنجھوڑ گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ایسا نہیں ہے، یہ مستقبل کی کہانی نہیں، آج کی کہانی ہے۔ تم بتاؤ کیا آج ہم لوگ الگ الگ بستیوں میں نہیں رہتے۔ مسلمانوں کی کالونی الگ ہوتی ہے، عیسائیوں کی الگ۔ ہندوؤں میں تو ہر ذات کی بستیاں الگ ہیں۔‘‘
Published: 26 Jun 2019, 5:10 PM IST
کیا ممبئی میں کوئی مسلمان آسانی سے کرائے پر گھر پا سکتا ہے؟ یا دہلی کی ہی بات کرو... پانی کے لیے لڑائی شروع ہو ہی گئی ہے۔ جہاں تک ماحولیات کا سوال ہے تو گرمی اور خشک سالی کی حالت سے بھی ہم گزر ہی رہے ہیں۔ یہ ویب سیریز مستقبل کی نہیں، آج کی بات کر رہا ہے۔ بس ہمیں یہ احساس نہیں ہے کہ ہم اسی ماحول میں رہ رہے ہیں جو شک، نفرت، حسد اور تشدد سے بھرا ہوا ہے۔‘‘
Published: 26 Jun 2019, 5:10 PM IST
اس نے ٹھیک کہا اور اس بات کا کوئی جواب میرے پاس نہیں تھا۔ لیکن، تب سے یہ بات پریشان کر رہی ہے کہ ترقی کی طرف رواں ہمارے سماج کا کیا یہی حشر ہونا تھا؟ سیریل میں اداکارہ بے تحاشہ اپنی بچی کی تلاش کرتی ہے جسے اس سے الگ کر دیا گیا ہے کیونکہ اس نے اونچی ذات کی ہوتی ہوئی ایک مسلمان سے شادی کی تھی۔
Published: 26 Jun 2019, 5:10 PM IST
دل دہلا دینے والی کشمکش ہے اس کی۔ لیکن یہ تو فکشن ہے۔ کیا ہم تلنگانہ کی حاملہ امرتا کو بھول سکتے ہیں جس کے سامنے اس کے شوہر پر چاقو سے حملہ کر کے مار دیا گیا تھا کیونکہ وہ نیچی ذات سے تھا اور امرتا نے ماں باپ کی مرضی کے خلاف اس سے شادی کی تھی؟ یہ تو ہماری اصلیت ہے، ہمارا شرمناک سچ۔
Published: 26 Jun 2019, 5:10 PM IST
یہ سیریل بغیر کسی سیاسی ریفرنس کے ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ نہیں، یہ مستقبل نہیں ہمارے حال کی بات کرتا ہے جسے ہمیں ہر حالت میں بدلنا چاہیے۔ اگر ہم آنے والی نسلوں کا خوشنما چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ایسا کرنا ہی ہوگا۔
Published: 26 Jun 2019, 5:10 PM IST
اس ویب سیریز میں لگاتار منظرنامے میں کچرے کا ایک بڑا ڈھیر ہمارے ماحولیات کی بدتر حالت کے ساتھ ہی ہمارے اندر کے کچرے کی علامت بھی ہے۔ سیریل بنانے والی دیپا مہتا کو اس بات کے لیے داد دینی چاہیے کہ انھوں نے وہ منحوسیت بھرا ماحول پردے پر اتارا ہے جو ہمارے اندر اور باہر تیار ہو رہا ہے۔ اگر اس سے بیدار ہو کر بچتے رہے تو ٹھیک ہے، ورنہ حیرانی نہیں کہ جلد ہی ’جے آریہ ورت‘ (اور بھی ایسے نعرے ہیں جنھیں گالیوں کے درمیان جبراً لوگوں سے بلوایا جاتا ہے) جیسے نعروں میں ہماری شناخت، ہماری نجی آزادی کچل دی جائے گی۔
Published: 26 Jun 2019, 5:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Jun 2019, 5:10 PM IST