حالیہ مظاہروں میں درجنوں ایرانی بچے قتل اور سینکڑوں کی تعداد میں جیلوں اور نفسیاتی مراکز میں مقید ہیں۔ یہ بچے مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں ہونے والے مظاہروں کا حصہ رہے۔ ایران میں گزشتہ ماہ امینی کی زیر حراست موت ہو گئی تھی۔ انہیں ایرانی اخلاقی پولیس کی جانب سے ہیڈ اسکارف ٹھیک سے نا اوڑھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔
Published: undefined
اس سخت ترین نظام سے پہلے ہی اکتائی ہوئی ایرانی نوجوان نسل جو 2010 کے بعد پیدا ہوئی ہے کے لیے یہ بہادری کا مظاہرہ ہے کہ وہ ایرانی سکیورٹی فورسز کے خلاف مظاہروں میں شریک ہوں۔
Published: undefined
ایرانی تھنک ٹینک ایٹلانٹک کونسل سے منسلک ہولی ڈاگریس نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ''ایران کی نوجوان نسل اکتا چکی ہے، وہ اس 'اسٹیٹس کو‘ پر ناراض ہیں اور اس بات کا اظہار آن لائن کرنے سے نہیں ڈرتے۔‘‘ ایران کی سڑکوں پر جوق در جوق خواتین اور نوجوان لڑکیاں 'خواتین کی آزادی‘ اور 'ڈکٹیٹر کی موت‘ جیسے نعرے لگا رہی ہیں۔
Published: undefined
ایک امریکی انسانی حقوق کی تنظیم ہیرانا کے مطابق ایرانی مظاہروں میں نوجوان نسل نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ ایران میں اب تک 18 کم عمر بچوں کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ تاہم یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مرنے والے بچوں کی تعداد بتائی جانے والی تعداد سے سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
ایران چلڈرنز رائٹس پروٹیکشن کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے 28 بچوں نے اپنی جانیں گنوا دیں جن میں ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے بچے بھی شامل ہیں جو پہلے ہی ایک پسماندہ صوبہ ہے۔ تہران میں موجود ایک انسانی حقوق کے گروپ کے مطابق ان بچوں کے بارے میں ان کے خاندانوں کو 'اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے‘ اور یہ کہ ان کے مقدمات مناسب قانونی نمائندگی کے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں۔
Published: undefined
انسانی حقوق کے وکیل حسن رئیسی نے کہا کہ گرفتار کیے گئے کچھ بچوں کو منشیات کے کیسز میں گرفتار بالغ مجرموں کے حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''یہ تشویشناک ہے۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا، ''قانونی تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی 18 سال سے کم عمر بچے کو کسی 18 سال سے زائد عمر کے مجرم کے ساتھ نہ رکھا جائے۔‘‘ان کے مطابق اس وقت 12 سے 19 سال کے درمیان کی عمر کے 300 سے زائد افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔ حالیہ مظاہروں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں دو 16 سالہ لڑکیاں نیکا شکرامی اور سرینا اسماعیل زادہ شامل ہیں جن کی موت نے ایران اور دنیا بھر میں غم و غصے کی ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔
Published: undefined
ایران کے وزیر تعلیم یوسف نوری نے اس بابت اپنے ایک بیان میں کہا کہ احتجاج کرنے والے بچوں کو سڑکوں اور کلاس رومز کے اندر سے بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے گرفتار کیے گئے اسکول کے بچوں کی تعداد کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا۔ '' وہ اتنے زیادہ نہیں ہیں، میں اس وقت صحیح نمبر نہیں بتا سکتا۔‘‘
Published: undefined
نوری نے کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد کو 'نفسیاتی مراکز‘ میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں بچوں کی گرفتاری کا مقصد انہیں سماج مخالف عناصر میں شامل ہونے سے روکنا اور ان کی اصلاح ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے ایران میں بچوں کی ہلاکت اور گرفتاریوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
Published: undefined
ایرانی نوجوانوں میں مقبول سمارٹ فون ایپس، جیسے کہ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر اس شدید کریک ڈاؤن اور انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود نوجوان اب بھی اپنے احتجاج کی ویڈیوز حاصل کرنے اور انہیں نشر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
Published: undefined
مظاہروں کے لیے نکلنے والے ماسک اور ٹوپیاں پہنتے ہیں۔ ٹریک ہونے سے بچنے کے لیے فون گھروں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے ڈپٹی کمانڈر علی فدوی نے ایرانی میڈیا کو دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ حالیہ مظاہروں میں سے گرفتار کیے گئے اکثر افراد کی اوسط عمر 15 سال ہے۔
Published: undefined
خبر رساں ایجنسی مہر نے فدوی کا بیان جاری کرتے ہوئے لکھا، ''گرفتار کیے گئے کچھ نوعمر بچوں اور نوجوان نے اپنے اعترافات میں یہ کہا ہے کہ سڑکوں پر ہونے والے فسادات کے طریقہ کار انہوں نے ویڈیو گیمز سے سیکھے۔‘‘
Published: undefined
ویڈیو گیمز کے حوالے سے تشویش کی بازگشت دیگر حکام کی جانب سے بھی سنائی دی۔ ایرانی اخلاقی پولیس سے منسلک ایک صوبائی تنظیم کے سربراہ عالم ابو الفضل احمدی کا کہنا ہے کہ ایران کے دشمن ملک کی نوجوان نسل کو استعمال کر رہے ہیں اور یہ کہ کچھ ویڈیو گیمز ایسے وقت میں نوجوانوں کو سڑکوں پر لانے کے لیے بنائے گئے تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز