علی حسن نے جب پاکستان چھوڑ کر پناہ کے متلاشی ایک نوجوان کے طور پر یورپ میں آباد ہونے کا سوچا تھا، تو وہ اپنے بھائی کے نقش قدم پر چل رہا تھا۔ ہر سال ہزاروں پاکستانی ایسا ہی کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت یہ نوجوان فرانسیسی دارالحکومت کی ایک جیل میں ہے، اس لیے کہ اس نے 25 ستمبر کو پیرس میں گوشت کاٹنے والے ایک چاپڑ کے ساتھ حملہ کر کے دو افراد کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
Published: undefined
اس حملے سے قبل اس نے ایک ویڈیو پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ فرانسیسی طنزیہ جریدے شارلی ایبدو میں شائع ہونے والے پیغمبر اسلام کے خاکوں پر رنجیدہ تھا اور بدلہ لینا چاہتا تھا۔
Published: undefined
Published: undefined
علی حسن نے اس حملے سے پہلے تک فرانس میں جو وقت گزارا تھا، اس کی بہت کم تفصیلات دستیاب ہیں۔ اس کی عمر کے بارے میں بھی کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ لیکن خبر رساں ادارے اے پی کی طرف سے کی گئی چھان بین اور پاکستان میں اس کی ذات سے متعلق سرکاری دستاویزات دیکھنے کے بعد اس نیوز ایجنسی نے لکھا ہے کہ علی حسن کی عمر اس وقت 18 برس ہے۔
Published: undefined
فرانسیسی تفتیشی ماہرین گزشتہ ماہ کے اواخر میں کیے جانے والے اس حملے کی ایک 'مسلم شدت پسندانہ کارروائی‘ کے طور پر چھان بین کر رہے ہیں۔ اس حملے نے جنوری 2015ء میں کیے جانے والے اس حملے کی یاد تازہ کر دی تھی، جب اسی فرانسیسی جریدے کے دفاتر پر کیے جانے والے حملے میں عسکریت پسندوں نے شارلی ایبدو کے 12 کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان عسکریت پسندوں نے کہا تھا کہ وہ یہ خونریز کارروائی دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے ایما پر کر رہے تھے۔
Published: undefined
Published: undefined
اب تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ علی حسن کا کسی دہشت گرد گروپ کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ اس کے برعکس تفتیشی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ غصے سے بھرا ہوا ایک ایسا نوجوان ہے، جس نے اپنے وطن سے دور فرانس میں یہ حملہ دراصل ایک ایسی دنیا میں کیا، جس سے وہ واقف ہی نہیں تھا، اور اس کے محرکات میں بظاہر پاکستان کا توہین مذہب سے متعلق بہت سخت قانون بھی ہے۔
Published: undefined
علی حسن کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب کے دیہی علاقے میں کوٹلی قاضی نامی ایک گاؤں سے ہے۔ اس گاؤں کے کئی نوجوانوں نے، جن میں اس کے بچپن کے دوست بھی شامل ہیں، بتایا کہ علی حسن کو بچپن ہی سے یورپ جانے کا شوق تھا کیونکہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بہتر مستقبل اور مالی خوشحالی کا خواہش مند تھا۔ کوٹلی قاضی سے گزشتہ چند برسوں کے دوران کم از کم بھی 18 نوجوان بہتر مستقبل کی خاطر پناہ کی تلاش میں بیرون ملک جا چکے ہیں۔
Published: undefined
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اس گاؤں کے بہت سے نوجوان علی حسن کو اس لیے ہیرو سمجھتے ہیں کہ اس نے پیرس میں حملہ کر کے دو افراد کو شدید زخمی کر دیا۔
Published: undefined
Published: undefined
کوٹلی قاضی پاکستانی صوبہ پنجاب کے جس ضلع کا گاؤں ہے، وہاں سخت گیر مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک کو گہرا اثر و رسوخ حاصل ہے۔ اس تحریک کا تقریباﹰ واحد مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کی روک تھام کے لیے بنایا گیا وہ متنازعہ قانون موجودہ حالت میں ہی نافذ رہنا چاہیے، جس کے تحت ایک مذہب کے طور پر اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین کے جرم میں کسی بھی ملزم کو سزائے موت سنا دی جاتی ہے۔
Published: undefined
علی حسن کے بچپن کے ایک دوست محمد اکرام نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا، ''یورپ جانا، جیسا کہ علی حسن فرانس چلا گیا تھا، سعودی عرب جیسے ممالک میں جانے سے بہتر ہے، کیونکہ یورپ میں آپ زیادہ رقم کما سکتے ہیں۔ لیکن میرے اور علی حسن کے کئی دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ علی حسن کی جگہ ہوتے، تو پیغمبر اسلام کے خاکے چھاپنے جیسی کوئی بھی حرکت دیکھ کر وہ بھی اسی طرح کے حملے ہی کرتے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
کوٹلی قاضی نامی گاؤں میں علی حسن کے خاندان کی ایک بزرگ ہمسایہ خاتون، 80 سالہ آمنہ نے بتایا، ''علی حسن بچپن میں اپنی عمر کے دوسرے لڑکوں کی طرح نہیں تھا، وہ صرف تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن مذہبی طور پر دیکھا جائے تو اس نے فرانس میں جو کچھ بھی کیا، شاید آپ میری رائے سے متفق نہ ہوں، لیکن میرے نزدیک تو اس نے درست کام کیا۔‘‘
Published: undefined
علی حسن کے والد ارشد محمود سے جب ان کی رائے دریافت کی گئی، تو انہوں نے اپنے گھر کے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا۔ ارشد محمود کے چند ہمسایوں کے مطابق اس پاکستانی باشندے نے صحافیوں سے کوئی بھی بات کرنے سے انکار اس لیے کیا کہ مقامی پولیس اور پاکستانی خفیہ ادارے پہلے ہی اسے خبردار کر چکے تھے کہ وہ عوامی سطح پر مزید کچھ بھی کہنے سے احتراز کرے۔ اس سے قبل پیرس میں اپنے بیٹے کی طرف سے کیے جانے والے حملے کے بعد ارشد محمود نے مبینہ طور پر اپنے بیٹے کے اس مجرمانہ اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے کئی مرتبہ کھلم کھلا اس کی تعریف بھی کی تھی۔
Published: undefined
Published: undefined
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم اٹلانٹک کونسل کے ایک فیلو، مصنف اور سیاسی اور سکیورٹی تجزیہ نگار شجاع نواز کے بقول پاکستان جیسے ممالک سے یورپ آنے والے نوجوان تارکین وطن کو ذہنی طور پر دو طرح کے عوامل کے باعث فکری تصادم کی صورت حال کا سامنا رہتا ہے۔
Published: undefined
شجاع نواز نے کہا، ''ایسے نوجوانوں کے آبائی ممالک، جیسے کہ پاکستان، زیادہ سے زیادہ مغرب بیزار ہوتے ہوئے اسلامیائے جانے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اس عمل کے اسباب میں عوامیت پسند حکومتیں، سخت گیر مذہبی شخصیات کا گہرا اثر و رسوخ اور تیزی سے ناکام ہوتے ہوئے تعلیمی نظام بھی شامل ہیں۔ دوسرا نقصان دہ عمل یہ ہے کہ جب ایسے نوجوان قانونی یا غیر قانونی طریقے سے مغربی ممالک میں پہنچ جاتے ہیں، تو وہ دیگر مسلمان یا ہم وطن تارکین وطن کے ساتھ مل کر ایسے بند سماجی گروپوں کے رکن بن جاتے ہیں، جہاں کسی بھی موضوع پر اتفاق رائے یا کسی بھی طرح کے حالات کے دفاع کے لیے مذہب کی آڑ لی جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان سے ایران، ترکی اور پھر اٹلی کے راستے اگست 2018ء میں فرانس پہنچنے والا علی حسن پیرس کی ایک جیل میں بند ہے۔ اس سال 11 ستمبر کے روز شارلی ایبدو کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی دوبارہ اشاعت کے بعد سے وہ غصے میں تھا اور اس غصے کا نتیجہ 25 ستمبر کو اس کی طرف سے کیے جانے والے حملے کی صورت میں نکلا تھا۔
Published: undefined
فرانسیسی پراسیکیوٹرز کی طرف سے علی حسن کے ساتھ رہنے والے افراد اور اس کے قریبی حلقوں سے کی جانے والی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ وہ تحریک لبیک پاکستان کے سخت گیر رہنما خادم حسین رضوی کی ایسی ویڈیوز دیکھتا رہتا تھا، جس میں خادم رضوی کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کی مذمت کی جاتی تھی۔
Published: undefined
اسی لیے علی حسن نے اپنی طرف سے کیے گئے حملے سے قبل سوشل میڈیا پر جو ویڈیو پوسٹ کی تھی، اس میں اس نے کہا تھا، ''اگر میں آپ کو جذباتی لگوں، تو اس کی ایک وجہ ہے، جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ یہاں فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکے چھاپے گئے ہیں، اور میں آج ان کے خلاف مزاحمت کروں گا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز