پرتگالی شہر لزبن کے ایک کیفے میں کام کرنے والی اینس مارینہو شام کے وقت اپنا کام ختم کر رہی تھیں، جب انہیں موبائل فون پر ایک پیغام موصول ہوا۔ اس پیغام میں انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ ایک پورن ویب سائٹ پر ان کی ایک عریاں ویڈیو موجود ہے، جسے دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر بھی کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
تب مارینہو 21 برس کی تھیں۔ پیغام ملنے کے بعد اپنے ردعمل کے بارے میں وہ بتاتی ہیں، ''میرا جسم جیسے سُن ہو گیا اور میں پریشانی کے عالم میں فوری طور پر اپنے خاندان کے پاس اپنے گھر پہنچی۔‘‘
Published: undefined
اینس مارینہو نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا، ''ایک شخص جس پر میں اعتماد کرتی تھی، اس نے میری نجی ویڈیو میرے نام کے ساتھ شیئر کر دی تھی۔ اسے ایک پورن ویب سائٹ پر شیئر کیا گیا تھا اور ویڈیو ٹوئٹر اور ٹیلی گرام پر بھی وائرل ہو چکی تھی۔ اس واقعے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔‘‘
Published: undefined
مارینہو 'نجی ویڈیوز یا تصاویر کی وجہ جنسی ہراسانی‘ کا شکار بننے والی کئی لڑکیوں میں سے ایک ہیں۔ یہ عمل ایک جرم ہے اور اس میں رضامندی کے بغیر پورن ویڈیو بنانا، انتقامی پورن، یعنی جب سابق پارٹنر انتقام کی غرض سے نجی تصاویر یا ویڈیوز خاتون کی رضامندی کے بغیر شیئر کر دے، جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔ اینس مارینہو اب پرتگال میں اس طرح جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والی خواتین کی مدد کے لیے قائم تنظیم 'نیو پارٹیلز‘ کی صدر بھی ہیں۔
Published: undefined
انہوں نے بتایا، ''جب میں نے اپنی ویڈیو آن لائن دیکھی تو میں فوری طور پر رپورٹ درج کرانے پولیس کے پاس گئی۔ وہ میری مدد کرنا چاہتے تھے لیکن ایسے بہت سے سائبر کرائمز کی وجہ سے ان پر پہلے ہی بہت بوجھ تھا۔ اب 2022 آ چکا ہے اور میرا مقدمہ اب تک چل رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
اینس کہتی ہیں، ''کبھی سڑک پر چلتے ہوئے مجھے لگتا ہے جیسے کوئی میری ویڈیو بنا رہا ہے اور میں بہت پریشان ہو جاتی ہوں۔ پھر مجھے خیال آتا ہے کہ میں نے کینسر جیسے موذی مرض کو شکست دے رکھی ہے تو میں اس مقدمے کا بھی سامنا کر سکتی ہوں۔‘‘
Published: undefined
روزمرہ کی زندگی تیزی سے ڈیجیٹل ہوتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل ہراسانی کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ دو مختلف تنظیموں کی جانب سے کیے گئے جائزوں کے مطابق یورپی یونین کے ممالک کی زیادہ تر خواتین کو خوف ہے کہ انہیں آن لائن ہراسیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 30 فیصد کو تو یہ خدشہ بھی ہے کہ ان کی جعلی عریاں تصاویر یا ویڈیوز بھی وائرل کی جا سکتی ہیں۔
Published: undefined
برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی سے وابستہ کلیئر میک گیلن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خواتین تصاویر پر مبنی جنسی ہراسانی کا شکار نہیں بننا چاہتیں۔ جنوبی کوریا میں تو پبلک ٹوائلٹ میں بھی خفیہ کیمرے لگا کر خواتین کی ویڈیوز بنا کر انہیں وائرل کرنے کے واقعات تواتر سے سامنے آتے ہیں۔ سو یہ ایک پیچیدہ لیکن انتہائی سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔‘‘
Published: undefined
پورن ویب سائٹس کو ایسی ویڈیوز سے بہت فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ایکس ہیمسٹر نامی پورن ویب سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ جب ویڈیو'خفیہ ریکارڈنگ‘ اور 'حقیقی اسکینڈل‘ کے طور پر پیش کی جائے تو دیگر ویڈیوز کی نسبت اسے دیکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
Published: undefined
مارینہو نے بتایا کہ ان کی ویڈیو سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر کیسے شیئر کی جاتی رہی، ''میں نے ٹوئٹر سے رابطہ کیا تو انہوں نے ویڈیوز ڈیلیٹ کر دیں لیکن ٹیلی گرام نے کہا کہ گروپس میں جو کچھ شیئر کیا جاتا ہے وہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ میری ویڈیو 'ریونج پورن‘ نامی ٹیلی گرام گروپ سمیت بہت سے دیگر گروپس میں شیئر کی جاتی رہیں۔‘‘
Published: undefined
’ہیٹ ایڈ‘ میں قانونی امور کی سربراہ جوزفین بیلون کہتی ہیں کہ تصاویر پر مبنی ہراسانی روکنے کے لیے ویڈیوز اور تصاویر کے دوبارہ شیئر کیے جانے کے معاملے سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔
Published: undefined
بیلون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مسئلہ یہ ہے کہ ایلگوردمز کے ذریعے ایسے مواد کو مسلسل ڈاؤن لوڈ اور پھر دوبارہ شیئر کیا جاتا ہے۔ یوں یہ مواد کبھی کئی برسوں تک آن لائن رہتا ہے۔ اس جرم کا نشانہ بننے والی خواتین گوگل پر سرچ کر کے دیکھتی ہیں کہ ویڈیو ڈیلیٹ ہوئی یا نہیں۔ یوں وہ یہ واقعہ کبھی بھول نہیں پاتیں اور ان کا صدمہ بھی ختم نہیں ہوتا۔‘‘ تاہم مارینہو کہتی ہیں کہ وہ اپنی ان ویڈیوز کی وجہ سے سوشل میڈیا کا استعمال ترک نہیں کرنا چاہتیں۔
Published: undefined
انہوں نے بتایا، ''میں نے کبھی سوشل میڈیا پروفائل ختم نہیں کیے کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ میں اتنی مضبوط ہوں کہ اس صورتحال کا سامنا کر سکوں۔ مجھے جو پسند ہو وہ پہنتی ہوں، اپنی تصاویر لیتی ہوں اور سوشل میڈیا پر شیئر بھی کرتی ہوں۔ میں بھی عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔‘‘
Published: undefined
انٹرنیٹ کی دنیا میں عوام کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے یورپی قانون سازوں نے جمعرات 20 جنوری کو 'ڈیجیٹل سروسز ایکٹ‘ یا 'ڈی ایس اے‘ منظور کیا ہے۔ یہ قانون بڑے آن لائن پلیٹ فارمز کو پابند بنائے گا کہ وہ غیر قانونی مواد کے خلاف کارروائی کریں۔
Published: undefined
یورپی پارلیمان کی رکن الیکزنڈرا گیزے نے بھی اس قانون کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ڈی ایس اے کے ذریعے متاثرہ افراد انٹرنیٹ سے تصاویر اور ویڈیوز آسانی سے ہٹوا سکیں گے۔ انہیں گمنام رہ کر آن لائن جانا ہو گا اور کیمرے کے سامنے جا کر تصدیق کرنا ہو گی کہ غیر قانونی پھیلائی گئی ویڈیوز اور تصاویر ان کی ہیں۔ اس کے بعد پلیٹ فارمز سے یہ مواد ہٹانے کا مطالبہ کیا جا سکے گا۔‘‘
Published: undefined
علاوہ ازیں پورن ویب سائٹ پر ویڈیو شیئر کرنے کے لیے فون نمبر کے ذریعے رجسٹریشن کرانا ہو گی۔ کمپنیاں اپنے ملازموں کو بھی تربیت فراہم کریں گی تاکہ وہ غیر قانونی مواد کی شناخت کر کے انہیں حذف کر سکیں۔
Published: undefined
یورپی پارلیمان، یورپی کمیشن اور کونسل کا اگلا ایجنڈا ڈی ایس اے پر عمل درآمد کرانے کا طریقہ کار اختیار کرنا ہے۔ تاہم میک گیلن کا کہنا ہے کہ یورپی یونین دریں اثنا آسٹریلیا کا طریقہ کار اختیار کر کے مسئلہ جلد حل کر سکتی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے بتایا، ''آسٹریلیا میں اگر آپ متاثر ہوں تو ملکی سیفٹی ریگولیٹر سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ پھر یہ ادارہ متعلق مواد ہٹوانے کے لیے کارروائی کرتا ہے۔ یہ بہتر طریقہ ہے کیوں کہ حکومتی ادارہ جلد اور موثر طریقے سے کام کر سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
مارینہو نئے قانون کی حمایت کرتی ہیں لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آن لائن جرائم سے متعلق نوجوانوں کو تربیت اور معلومات فراہم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ وہ پرتگال کے اسکولوں میں جا کر اپنے تجربات بتاتی ہیں تاکہ ایسے جرام کا نشانہ بننے والے خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز