ڈیجیٹل تنظیم بِٹ کوائن کے ایک حالیہ سروے کے مطابق جرمنی میں دس ملین سے زائد افراد یا ایک چوتھائی ورکنگ فورس ہوم آفس کر رہے ہيں۔ اب کئی افراد تو اس نئی صورتحال میں پوری طرح جذب ہو کر رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب ایک کثیر ورکنگ کمیونٹی اس سے الٹ سوچ رکھتی ہے۔ جرمنی کی ژینا یونیورسٹی ميں ماہر عمرانیات کلاؤس ڈؤرے کا کہنا ہے کہ لمبے عرصے تک ہوم آفس کرنے کے گہرے منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
کلاؤس ڈؤرے کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دفتر کی ضرورت کے مطابق ویڈیو کانفرنس کے دوران ہوم آفس کرنے والا شخص مناسب انداز میں نہ اپنے اور نہ ہی دوسرے کے چہروں کو دیکھ کر موضوع کی نزاکت کا احساس کر سکتا ہے۔ اس اہم پہلو کی عدم موجودگی سے کوئی بھی ایک فرد چہرے سے جذبات کے اظہار سے محروم ہو سکتا ہے۔ ماہر عمرانیات کے مطابق اس محرومی سے کوئی بھی فرد عدم تحفظ کا شکار ہو کر جارحانہ رویے کو اپنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ایک مشکل امر ہو سکتا ہے۔ ہوم آفس میں ایک شخص اپنے ساتھیوں کے ساتھ خیالات اور معلومات کے تبادلے سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ ہوم آفس کرنے والے حقیقی میٹنگ سے دور ہو کر محض مخصوص اہداف پر فوکس ہونے کے احساس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
ہوم آفس میں خاص طور پر خواتین کسی حد تک پِس کر رہ گئی ہیں۔ یہ رائے کلاؤس ڈؤرے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہوم آفس کے دوران انہیں بچوں کی نگرانی و نگہداشت پر غیر معمولی توجہ مرکوز کرنی پڑ رہی ہے۔ اس تناظر میں ڈوئیس برگ یونیورسٹی کی لیبر سائیکالوجسٹ آنیا گیرلمائر کا کہنا ہے کہ ہوم آفس میں خواتین پر بوجھ کی وجہ پرانے انداز میں گھریلو ذمہ داریاں سنبھالنا نہیں ہے بلکہ ایسا کبھی نہیں ہوا، ہر دور میں گھر کی ذمہ داری خواتین نے ہی سنبھال رکھی ہے۔
Published: undefined
بیرٹلمان فاؤنڈیشن کے ایک سروے میں انہتر فیصد عورتوں کا کہنا ہے کہ ہوم آفس کے دوران انہیں بہت سارا گھر کا کام بھی ساتھ ساتھ کرنا پڑتا ہے اور یہ اضافی بوجھ ہے۔ اس باعث خواتین ہوم آفس میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ عدم اطمینان کا شکار ہیں۔ گھر میں انہیں زیادہ ڈسٹرب کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
جن خاندانوں میں بچے ہوتے ہیں، ان میں ہوم آفس کرنے والی خواتیں اپنی توجہ پوری طرح کام پر مرکوز کرنے میں قاصر رہتی ہیں۔ اس دوران انہیں بچوں کی شکایات یا انہیں پڑھانا بھی پڑھتا ہے۔ آنیا گیرالمائر کا کہنا ہے کہ اس صورت میں بچوں کی نگہداشت اور پیشہ ورانہ توجہ میں ایک ساتھ توازن قائم کرنا نا ممکن ہے۔ عورتوں کے ہوم آفس کی صورت میں انتظامی عہدے مردوں کو تفویض کرنے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ گیرالمائر کا مزید کہنا ہے کہ چھٹیوں میں ہوم آفس کرنے والی خواتین کی زندگی انتہائی مشکلات سے دوچار ہو جاتی ہے اور انہیں نوکری اور گھریلو مسائل کی وجہ سے ایک طرح سے دیوار کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے اور یہ دہرا نقصان ہے۔
Published: undefined
کلاؤس ڈؤرے اور آنیا گیرالمائر کا اس پر اتفاق ہے کہ جب وبا اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی تو موجودہ صورت حال جوں کی توں نہیں رہے گی اور حالات یقینی طور پر نارمل ہو جائیں گے۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ نوکری اور ذاتی زندگی میں تفریق لازمی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز