سماج

’اٹھا لو اِسے اور جو دل کرے وہ کرو‘

شام کی جیلوں میں جنسی تشدد وسیع پیمانے پر انتہائی ظالمانہ انداز میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کو عالمی سطح پر کم توجہ حاصل ہوئی ہے۔ جرمنی میں اس کے متاثرین انصاف کے طلب گار ہیں۔

’اٹھا لو اِسے اور جو دل کرے وہ کرو‘
’اٹھا لو اِسے اور جو دل کرے وہ کرو‘ 

جنگی حالات سے دوچار ملک شام میں زیادہ تر خواتین کے لیے جبر اور خوف کا سلسلہ ان کی گرفتاری کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ مرد فوجی گرفتار خواتین کے ساتھ انتہائی نامناسب برتاؤ شروع کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ جیل پہنچنے پر مرد محافظین انہیں جبراً عریاں کر کے ان کے جسموں کے استحصال کے سلسلے کا آغاز کر دیتے ہیں۔ اسد حکومت کی جیلیں ہزاروں مقید خواتین کے لیے دوزخ سے کم نہیں ہیں۔ متاثرہ خواتین کی ان جیلوں میں ذہنی توڑ پھوڑ اتنی ہوئی کہ وہ اپنے خاندان اور کمیونٹی سے کٹ کر رہ گئیں۔

Published: undefined

شامی حکومت کی جیلوں میں جنس کی بنیاد پر کیا جانے والا جبر اور تشدد ایک معمول کا فعل ہے جو بہت زیادہ پھیل چکا ہے۔ انٹرنیشنل قانون کی ماہر الیگزینڈرا لِلِی کیتھر کا کہنا ہے کہ میڈیا پر شامی حکومت کے اس جرم کو سب سے کم رپورٹ کیا گیا ہے۔ لِلِی کیتھر کے مطابق فضائی حملوں اور بمباری، مختلف قسم کے ہتھیاروں کا استعمال، ٹارچر اور داعش کے بارے میں رپورٹنگ تو کی جاتی رہی ہے لیکن سب سے کم خبریں خواتین کے ساتھ گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے جنسی تشدد کی سامنے آئی ہیں۔

Published: undefined

کیتھر جرمن دارالحکومت برلن میں قائم یورپی مرکز برائے قانون اور انسانی حقوق (ECCHR) کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک ایسے مظالم کرنے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کبھی کوئی بات نہیں کی گئی۔ کیتھر مزید کہتی ہیں کہ جیلوں میں جنسی تشدد کی شکار ہونے والی عورتیں ذہنی اور سماجی اعتبار سے تباہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔

Published: undefined

گزشتہ منگل کو الیگزینڈرا لِلِی کیتھر اور ان کی ECCHR میں کام کرنے والی ساتھی خواتین نے ایک مہم شروع کی ہے اور خیال کیا گیا ہے کہ یہ مہم صورت حال میں تبدیلی پیدا کر سکتی ہے۔ یورپی مرکز برائے قانون اور انسانی حقوق کی خواتین نے عملی قدم اٹھاتے ہوئے جنسی تشدد کرنے والوں کے خلاف وفاقی جرمن دفتر استغاثہ کو ایک درخواست دی ہے کہ اس تناظر میں عدالتی کارروائی شروع کی جائے۔

Published: undefined

اس شکایت کے اندراج میں شام سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن جومانا سیف بھی شامل ہیں۔ اس شکایت میں جرمن مستیغیث اعلیٰ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ شام کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ جمیل حسن اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے وارانٹ جاری کریں۔ اس کے علاوہ جنسی تشدد کی کارروائیوں کی منظم تفتیش کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

Published: undefined

یہ امر اہم ہے کہ جرمنی دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے شام کی خفیہ ایجنسی کے دو سابق اہلکاروں کے خلاف مقدمہ شروع کر رکھا ہے۔ ان اہلکاروں کو جنگی جرائم سرزد کرنے پر آفاقی دائرہ اختیار کے اصول کے تحت عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ کسی اور ملک میں جرائم کرنے والوں کو آفاقی دائرہ اختیار کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے مختلف ممالک عدالتی کٹہرے میں کھڑا کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

یورپی مرکز برائے قانون اور انسانی حقوق کی خواتین نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ جرمنی جنسی تشدد کو انسانیت کے خلاف کیے جانے والے جرائم میں شامل کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ ان سرگرم خواتین کے مطابق اس امر کو نظرانداز کرنے کا فائدہ مبینہ مجرموں کو حاصل ہو گا اور یہ متاثرہ خواتین کے ساتھ زیادتی ہو گی۔

Published: undefined

اس تناظر میں الیگزینڈرا لِلِی کیتھر کا موقف ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے شام میں روا رکھا جانے والا جنسی تشدد منظم انداز میں شہری آبادیوں پر کیا جانے والا ٹارچر ہے اور جرمنی اس کو انسانیت کے خلاف جرم میں شمار کرے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل بھی ایسی رائے کی حمایت کرتی ہے۔ سن 2018 میں عالمی ادارے کی کونسل نے پانچ سو متاثرہ خواتین کی شہادتوں پر متحارب فریقوں، اسد حکومت کی فوج اور جنگی ملیشیا کو جنسی حملوں اور تشدد کا مرتکب قرار دیا تھا۔ کونسل کے مطابق شام میں جنسی تشدد کسی بھی خاتون یا مرد کے خلاف جبر و خوف اور ذلیل کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined