سماج

’حجاب کو نظر انداز کیا تو تمہارے والد جنت ميں نہيں جائيں گے‘

ہيومن رائٹس واچ نے اپنی ايک تازہ رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ انڈونيشيا ميں نوجوان لڑکيوں اور خواتين کو حجاب پہننے پر مجبور کيا جا رہا ہے۔ کيا بہتر مسلمان بننے کے ليے حجاب کا استعمال لازمی ہے؟

علامتی تصویر آئی اے این ایس
علامتی تصویر آئی اے این ایس 

ايفا حنيفہ مسباک کی عمر انيس برس تھی، جب ان کے والد کا انتقال ہو گيا۔ وہ ياد کرتی ہيں کہ اس موقع پر ان کے اہل خانہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ان کے والد اس ليے جنت میں نہيں جا سکيں گے کيونکہ وہ حجاب نہيں کرتيں۔ آج مسباک مغربی جاوا کے شہر بنڈونگ ميں سائيکالوجسٹ کے طور پر کام کرتی ہيں۔ وہ ايسی درجنوں انڈونيشی لڑکيوں کی نفسیاتی مشاورت کر چکی ہيں، جنہيں صرف حجاب نہ پہننے کی وجہ سے اسکولوں اور ديگر مقامات پر ہراسگی کا سامنا رہا۔

Published: undefined

مسباک کے مطابق، ''مذہبی بنيادوں پر دباؤ، بالخصوص کم عمری ميں حجاب پہننے کے ليے نفسیاتی دباؤ، دم گھٹنے جيسے احساس کی وجہ بنتا ہے۔‘‘ انہوں نے يہ بات ہيومن رائٹس واچ کو بتائی، جو انسانی حقوق کے ليے فعال اس ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مسودے ميں بھی شامل ہے۔ یہ پينتاليس سالہ نفسياتی ماہر ايسے تجربات سے گزرنے والی واحد انڈونیشی خاتون نہيں ہیں۔ ايچ آر ڈبليو کی رپورٹ ميں ایسی کئی خواتين کے تجربات کی تفصيل شامل ہے۔ چند ايک واقعات ميں تو بچيوں کا حجاب نہ پہننا ان کے اسکولوں سے اخراج کی وجہ بھی بنا۔

Published: undefined

انڈونيشی معاشرے ميں مذہبی تنوع دکھائی ديتا ہے۔ وہاں مسيحی، ہندو اور بدھ مذہبی برادرياں آباد ہيں۔ مگر گزشتہ دو دہائيوں ميں عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے اور اسلام کے علاوہ ديگر عقائد کے پیروکاروں کے ليے سماجی سطح پر آزادی آہستہ آہستہ محدود ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

Published: undefined

'حجاب کے ليے زبردستی، بنيادی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘

Published: undefined

ہيومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ ميں انڈونيشی ريسرچر آندرياس ہارسانو کے حوالے سے لکھا ہے کہ انڈونيشيا ميں لڑکيوں پر حجاب پہننے کے ليے بہت زيادہ اور مسلسل دباؤ رہتا ہے۔ اس ادارے کے مطابق يہ آزادی مذہب، آزادی اظہار رائے اور پرائيويسی کے بنيادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

Published: undefined

اس ادارے نے اپنی رپورٹ ميں واضح کيا ہے کہ حجاب پہننا یا نا پہننا کسی کے لیے بھی لازم نہيں کيا جانا چاہيے بلکہ اس معاملے ميں خواتين کی مرضی ضروری ہونا چاہيے۔ ہارسانو نے کہا، ''انڈونيشيا ميں يہ خيال عام ہوتا جا رہا ہے کہ جو مسلم خواتين حجاب استعمال نہيں کرتيں، وہ کم مذہبی ہيں يا اخلاقی سطح پر کمتر ہيں۔‘‘

Published: undefined

ہيومن رائٹس واچ نے سن 2001 سے لے کر اب تک خواتين کے لباس سے متعلق ساٹھ ايسے ضوابط کی شناخت کی ہے، جنہيں يہ ادارہ 'امتيازی‘ ضابطے قرار ديتا ہے۔ سن 2014 ميں منظور کردہ ايک قانون کے تحت اسکولوں ميں تمام مسلم لڑکيوں کے لیے حجاب کرنا لازمی ہے۔ اس رپورٹ ميں مزيد کہا گيا ہے، ''انڈونيشيا ميں سرکاری اسکول لڑکيوں کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے کے ليے نفسياتی دباؤ، عوامی سطح پر بے عزتی اور سزاؤں جيسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہيں۔‘‘

Published: undefined

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس سلسلے ميں انڈونيشيا کی وزارت تعليم کا موقف جاننے کے لیے اس وزارت سے رابطہ کيا، مگر اس کا اسے آخری خبریں آنے تک کوئی جواب موصول نہيں ہوا تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined