سماج

ممنوع موضوعات کو چیلنج کرتی ہوئی پاکستانی فیمینسٹ کامیڈینز

تمام تر رکاوٹوں اور سماجی دشواریوں کے باوجود پاکستانی خاتون کامیڈینز مزاحیہ انداز میں جنسی فرسودہ تصورات کو توڑ رہی ہیں اور اپنے ذاتی مشاہدات کو شیئر کر تے ہوئے پدرسری رسومات پر ضرب لگارہی ہیں۔

ممنوع موضوعات کو چیلنج کرتی ہوئی پاکستانی فیمینسٹ کامیڈینز
ممنوع موضوعات کو چیلنج کرتی ہوئی پاکستانی فیمینسٹ کامیڈینز 

ماہواری، سیکس، جسمانی ہیت پر طنز، حراسانی، عورت دشمنی اور ڈیٹنگ، یہ ایسے موضوعات ہیں جو عموما پاکستانی گھرانوں میں میں یا دوستوں کی محفلوں میں کھلم کھلا موضوع بحث نہیں بنتے۔ لیکن جب ان ممنوعہ موضوعات کو کامیڈی کے طور پر کھچا کھچ بھرے ہوئے ہالوں میں پیش کیا جاتا ہے، تو یہ سامعین کے لیے طنز و مزاح کا بہترین سامان مہیا کرتے ہیں۔ مختلف فیملیز، شادی شدہ جوڑے، بڑے اور نوجوان بڑی تعداد میں اس طرح کی پرفارمنسز دیکھنے آتے ہیں، جہاں خواتین فنکارائیں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ گو کہ اس طرح کی کامیڈی اب عام ہوتی جارہی ہے لیکن اسٹینڈ اپ کامیڈی اب بھی خواتین کے لیے نئی ہے۔

Published: undefined

تاریخی طور پر ملک میں کامیڈی پر ہمیشہ سے مردوں کی اجارہ داری رہی ہے۔ جو تھوڑی بہت خواتین اگر اس فیلڈ میں تھیں بھی تو وہ صرف ٹیلی ویژن تک ہی محدود رہی ہیں۔ جو خواتین اسٹینڈ اپ کامیڈی کررہی ہیں، انہیں بھی ابھی کچھ عرصے پہلے تک قبولیت نہیں ملی کیونکہ خواتین کے اسٹیج پر جانے کو، چاہے وہ اکیلی ہوں یا کسی کے ساتھ بھی ہوں، بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور ان کے حوالے سے منفی رائے رکھی جاتی ہے۔

Published: undefined

گو کہ پاکستانی گلوکار جیسا کہ نورجہاں طویل عرصہ تک پاکستان کے پاپ کلچر میں نمایاں رہی ہیں، فیمیل کامیڈین اس طرح کا مقام حاصل نہیں کر پائیں۔ پاکستانی معاشرے میں خواتین شگوفوں کا موضوع رہی ہیں لیکن وہ خود لطیفے نہیں سناتیں۔ تاہم گزشتہ ایک عشرے میں اسٹینڈ اپ کامیڈی اور فی البہدیہ کامیڈی کی بدولت خواتین نے بھی اپنے لیے مزاح کی دنیا میں ایک جگہ بنالی ہے۔

Published: undefined

کئی خواتین مزاحیہ فنکاراوں کا کہنا ہے کہ جگہ جگہ جا کر اداکاری کرنے والے خواتین گروپس کی وجہ سے ان میں اتنا اعتماد اور احساس تحفظ آیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے پرفارم کرنے کے قابل ہوئی ہیں۔ اکتیس سالہ امتل بوجہ، جو ڈیجیٹل کانٹینٹ کریٹر اور کامیڈین ہیں، کا کہنا ہے کہ دو ہزار گیارہ میں جب وہ یوینورسٹی کی طالبہ تھی، پرفارم کر رہی ہیں۔ لیکن جب تک انہوں نے ساؤتھ ایشیا فیمیل کمیڈین گروپ جوائن نہیں کیا اس وقت تک وہ کامیڈی کرنے میں پر اعتماد نہیں تھی۔ اس گروپ کا نام 'دی خواتون دوہزار سولہ‘ ہے۔

Published: undefined

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خواتین کے ساتھ کام کرکے میرا اعتماد بڑھا، اس سے پہلے کامیڈی پر مردوں کا غلبہ تھا۔ اس لیے زیادہ تر مزاحیہ کردار مرد ہی ادا کرتے تھے اور ناظرین کو بھی مرد زیادہ مزاحیہ لگتے تھے اور ناظرین کی وجہ سے خواتین کو رول کے حوالے سے بہت محنت کرنی پڑتی تھی۔ لیکن گروپ کے ساتھ ہمیں ہی تمام کردار ادا کرنے پڑتے ہیں، یہاں تک کے مردوں کے کردار بھی، جس پر لوگ بہت ہنستے تھے۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خواتین کے ساتھ کام کرکے میرا اعتماد بڑھا، اس سے پہلے کامیڈی پر مردوں کا غلبہ تھا۔ اس لیے زیادہ تر مزاحیہ کردار مرد ہی ادا کرتے تھے اور ناظرین کو بھی مرد زیادہ مزاحیہ لگتے تھے اور ناظرین کی وجہ سے خواتین کو رول کے حوالے سے بہت محنت کرنی پڑتی تھی۔ لیکن گروپ کے ساتھ ہمیں ہی تمام کردار ادا کرنے پڑتے ہیں، یہاں تک کے مردوں کے کردار بھی، جس پر لوگ بہت ہنستے تھے۔‘‘

Published: undefined

فائزہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے یہ گروپ اس لیے شروع کیا تھا تا کہ خواتین کو احساس تحفظ ہو اور وہ آزدانہ طور پر اپنی صلاحیت کا اظہار کر سکیں اور پیچدہ معاملات پر کامیڈی کے ذریعے بول سکیں۔ امتل اور فائزہ نہ صرف ایک ہی گروپ میں ہیں بلکہ ان دونوں نے کامیڈین کے طور پربہت کامیاب کیریئر بھی شروع کیا ہے اور وہ سوشل میڈیا طاقت اور رسائی کو بھرپور طریقے سے استعمال کررہی ہیں۔ امتل کے انسٹا گرام پر سینتالیس ہزار فالورز ہیں جب کہ فائزہ کے ایک لاکھ اٹہتر ہزار ہیں۔ سوشل میڈیا اور گروپ میں ہونے کی وجہ سے دونوں کو احساس تحفظ اور آزادانہ ماحول میں کام کرنے کا موقع ملا ہے۔

Published: undefined

64 سالہ روبینہ احمد ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔ انہوں نے چار سال پہلے اسٹینڈ اپ کامیڈی شروع کی۔ انہوں نے بھی فنکارانہ پناہ فیمینسٹ گروپ عورت ناک میں پائی۔ اس سے پہلے وہ نوجوان لڑکوں کے ساتھ کام کرتی تھیں جہاں انہیں اتنی آزادی سے اپنے پسندیدہ موضوعات پر کام نہیں کر سکتی تھیں۔

Published: undefined

مزاح پدرسری نظام کو چیلنج کرنا کا ہتھیار

اپنے ریٹائرمنٹ کے ایک دن بعد روبینہ نے حال ہی میں ایک سو لو پرفارم کرکے مزید رکاوٹیں توڑیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے لیے کامیڈی ایک تلخ گولی ہے، جو کڑوی ہے لیکن میں اسے آسانی سے نگل سکتی ہوں۔ میں اپنے ڈراموں میں عموما ان موضوعات کو زیر بحث لاتی ہوں جو خواتین سے متعلق ہوتے ہیں۔ پدر سری، عورت دشمنی، ممنوعہ موضوعات، جذباتی استحصال، جنسی شناخت، جنسی ترجیحات وغیرہ وغیرہ کچھ ایسے موضوعات ہیں جو میں اپنے ڈراموں میں اٹھاتی ہوں۔

Published: undefined

روبینہ نے سولو میں بہت ساری پدرسری رکا وٹوں کو ایک ایسی آڈینس کے سامنے پیش کیا جس میں مختلف طبقات کے لوگ تھے اور اپنے ڈرامے کے ذریعے یہ ظاہر کیا کہ کس طرح سماجی تصورات نے بچپن سے لے کر جوانی تک ان کی جسمانی خود مختاری پر ضرب لگائی۔

Published: undefined

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میں ان موضوعات پر بولتی ہوں جن کا میں نے زندگی میں تجربہ کیا ہے۔ میں کبھی فرضی معاملات پر اور فرضی صورتحال پر بات نہیں کرتی۔ حقیقی موضوعات پر بات کرنے کی وجہ سے سے میرے جذبات زیادہ فطری اور پر اثر لگتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

روبینہ نے ایک اور ممنوع موضوع کو چیلنج کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ساٹھ سال کی عمر کے بعد انہیں پتہ چلا کہ ان کی جنسی ساخت نان بائینری ہے۔ روبینہ نے ایک ڈرامے میں اپنے کپڑوں سے چولی (برا) نکال کر اسٹیج پر پھینکی اور اس سے علامتی طور یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ اپنے جسم پر پدری سری کے تسلط کو ختم کر رہی ہیں۔

Published: undefined

امتل کا کہنا ہے، ''ہم پبلک اسپیس حاصل کر رہے ہیں۔ اگر ہم خواتین کے مسائل پہ بات بھی نہیں کر رہے لیکن صرف کھڑے ہو کر بولنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ہم فیمنسٹ ہیں۔ اس طرح آپ نمائندگی اور برابری کے لیے کام کر رہے ہیں۔

Published: undefined

تیس سالہ آمنہ بیگ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس آفیسر ہے اور تین برسوں سے اسٹینڈ اپ کامیڈی کررہی ہے۔ آمنہ دو ایسے شعبوں پولیس اور کامیڈی میں ہے، جہاں مردوں کا تسلط ہے۔ وہ کامیڈی کا استعمال کر کے سماج کے مروجہ قوانین، پولیس ڈیپارٹمنٹ اور معاشرے میں جو سیکسزم عزم ہے، اس کو مثالوں سے سمجھا رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined