''کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی‘‘ افغان کھلاڑی امیراں (نام تبدیل کیا گیا ہے)۔ ''میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ میرا قصور فقط اتنا ہے کہ میں کھیلوں میں حصہ لیتی ہوں۔‘‘ 2021 میں افغانستان میں جب سے طالبان اقتدار میں آئے۔ امیراں اپنے ملک کی بہترین جوڈو فائیٹرز میں سے ایک تھیں۔ کچھ دن قبل امیراں کے گھر پر طالبان کی جانب سے چھاپا مارا گیا تاکہ وہ کاغذات حاصل کیے جاسکیں جس سے یہ ثابت ہو کے وہ قومی ٹیم کا حصہ رہی ہیں۔
Published: undefined
ایک اور ایتھلیٹ فریبہ ریزائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خوش قسمتی سے وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ پورا دن مقامی قبرستان میں چھپی رہی، طالبان اسے وہاں تلاش نہیں کر سکے۔‘‘ اگر وہ کاغذات طالبان کو اس کے گھر سے مل جاتے تو اسے شریعہ کورٹ کے سامنے پیش کیا جاتا جس کے نتیجے میں اسے سو کوڑے کھانے پڑتے یا اسے سرعام پھانسی دے دی جاتی۔‘‘
Published: undefined
ریزائی خود بھی ایک زمانے میں افغانستان کی مشہور جوڈو کھلاڑی رہی ہیں۔ وہ اور ٹریک اینڈ فیلڈ سپرنٹر روبینہ مقیم یار 2004 میں ایتھنز میں ہونے والے اولمپکس میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خواتین میں سے ایک تھیں۔
Published: undefined
ریزائی کہتی ہیں کہ یہ افغانستان میں ایک انقلاب تھا۔ 2011 میں وہ اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور انہوں نے کینیڈا کا رخ کیا۔ جہاں اس 36 سالہ خاتون نے نے امدادی تنظیم ''وومن لیڈرز آف ٹومارو‘‘ یا ''کل کی رہنما خواتین‘‘ کی بنیاد رکھی، جو افغانستان سے آنے والی خواتین پناہ گزینوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہے۔
Published: undefined
افغانستان میں جوڈو کھلاڑیوں کی ڈرامائی صورتحال کے بارے میں امیراں کہتی ہیں، ''ہمیں افغانستان میں خواتین کے لیے جیل کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے گھر ہمارے لیے جیل بن چکے ہیں۔‘‘
Published: undefined
خواتین مخالف پالیسیوں کے سبب 1996 سے 2001 تک طالبان کی پہلی حکومت کے دوران، انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے افغانستان کو 2000 کے سڈنی گیمز سے خارج کر دیا تھا۔ ریزائی کا کہنا ہے کہ طالبان کا یہ رویہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ''شرعی قانون کی ان کی تشریح کے مطابق، خواتین کے کھیل ایک گناہ ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح جنسی اشارے مردوں کو بھیجے جاتے ہیں کیونکہ جسمانی سرگرمی کے دوران عورت کا جسم نظر آتا ہے۔ خواتین کو جِم میں ورزش کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
کینیڈا کی حکومت نے پناہ گزینوں کی پالیسی کو اپنی فوج کے افغان مترجموں، سابقہ مقامی افغان فورسز اور ان کے خاندانوں پر مرکوز کیا ہوا ہے۔ ریزائی کہتی ہیں، ''یورپ میں بھی، ان خواتین کے لیے ویزا حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ یوکرین کی جنگ چیزوں کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ دنیا کی تمام تر توجہ یوکرینی مہاجرین پر مرکوز ہے اور دنیا افغانستان کو بھول رہی ہے۔‘‘
Published: undefined
آٹھ ماہ قبل طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، صرف آئی سی سی، عالمی کرکٹ کی گورننگ باڈی نے خواتین کے کھیلوں کے بارے میں افغان موقف کی وجہ سے افغانستان کو بے دخل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن بعد ازاں آئی سی سی نے اپنی پوزیشن میں نرمی کی۔ ''وہ افغان خواتین کے کھیلوں کی نگرانی سمیت بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے لیے افغان مردوں کی ٹیم کی حمایت جاری رکھے گی۔‘‘
Published: undefined
ریزائی کھیلوں کی فیڈریشنوں کی کارروائی کو سمجھنے سے گریزاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں،''اب دباؤ ڈالنے کا بہترین وقت ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے بغیر اور خواتین کے کھیلوں کے بغیر کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
ریزائی کے لیے ہار ماننا کوئی حل نہیں باوجود اس کے کہ انہیں اکثر اپنے آبائی ملک سے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں اس کی عادی ہوں۔جب کوئی ایتھلیٹ اپنا حوصلہ کھو دیتا ہے، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی ماں سے اس کا بچہ چھین لیں۔ میں بین الاقوامی برادری سے بھی کہہ رہی ہوں کہ وہ نہ صرف افغانستان میں خواتین کھلاڑیوں کی جانیں بچائیں بلکہ ان کی امید کو زندہ رکھنے کے لیے کوشش کریں۔ اب بھی امید کی آخری کرن روشن ہے اور اسے بجھنے نہیں دینا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined