سماج

خواتین افغان ایتھلیٹس، اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی خواتین ایتھلیٹس اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ طالبان کے مطابق خواتین کا کسی بھی کھیل کا حصہ ہونا شریعت کے منافی ہے۔

خواتین افغان ایتھلیٹس، اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ
خواتین افغان ایتھلیٹس، اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ 

''کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی‘‘ افغان کھلاڑی امیراں (نام تبدیل کیا گیا ہے)۔ ''میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ میرا قصور فقط اتنا ہے کہ میں کھیلوں میں حصہ لیتی ہوں۔‘‘ 2021 میں افغانستان میں جب سے طالبان اقتدار میں آئے۔ امیراں اپنے ملک کی بہترین جوڈو فائیٹرز میں سے ایک تھیں۔ کچھ دن قبل امیراں کے گھر پر طالبان کی جانب سے چھاپا مارا گیا تاکہ وہ کاغذات حاصل کیے جاسکیں جس سے یہ ثابت ہو کے وہ قومی ٹیم کا حصہ رہی ہیں۔

Published: undefined

ایک اور ایتھلیٹ فریبہ ریزائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خوش قسمتی سے وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ پورا دن مقامی قبرستان میں چھپی رہی، طالبان اسے وہاں تلاش نہیں کر سکے۔‘‘ اگر وہ کاغذات طالبان کو اس کے گھر سے مل جاتے تو اسے شریعہ کورٹ کے سامنے پیش کیا جاتا جس کے نتیجے میں اسے سو کوڑے کھانے پڑتے یا اسے سرعام پھانسی دے دی جاتی۔‘‘

Published: undefined

ریزائی خود بھی ایک زمانے میں افغانستان کی مشہور جوڈو کھلاڑی رہی ہیں۔ وہ اور ٹریک اینڈ فیلڈ سپرنٹر روبینہ مقیم یار 2004 میں ایتھنز میں ہونے والے اولمپکس میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خواتین میں سے ایک تھیں۔

Published: undefined

ریزائی کہتی ہیں کہ یہ افغانستان میں ایک انقلاب تھا۔ 2011 میں وہ اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور انہوں نے کینیڈا کا رخ کیا۔ جہاں اس 36 سالہ خاتون نے نے امدادی تنظیم ''وومن لیڈرز آف ٹومارو‘‘ یا ''کل کی رہنما خواتین‘‘ کی بنیاد رکھی، جو افغانستان سے آنے والی خواتین پناہ گزینوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہے۔

Published: undefined

افغانستان میں جوڈو کھلاڑیوں کی ڈرامائی صورتحال کے بارے میں امیراں کہتی ہیں، ''ہمیں افغانستان میں خواتین کے لیے جیل کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے گھر ہمارے لیے جیل بن چکے ہیں۔‘‘

Published: undefined

خواتین مخالف پالیسیوں کے سبب 1996 سے 2001 تک طالبان کی پہلی حکومت کے دوران، انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے افغانستان کو 2000 کے سڈنی گیمز سے خارج کر دیا تھا۔ ریزائی کا کہنا ہے کہ طالبان کا یہ رویہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ''شرعی قانون کی ان کی تشریح کے مطابق، خواتین کے کھیل ایک گناہ ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح جنسی اشارے مردوں کو بھیجے جاتے ہیں کیونکہ جسمانی سرگرمی کے دوران عورت کا جسم نظر آتا ہے۔ خواتین کو جِم میں ورزش کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

دنیا افغانستان کو بھول گئی ہے

کینیڈا کی حکومت نے پناہ گزینوں کی پالیسی کو اپنی فوج کے افغان مترجموں، سابقہ ​​مقامی افغان فورسز اور ان کے خاندانوں پر مرکوز کیا ہوا ہے۔ ریزائی کہتی ہیں، ''یورپ میں بھی، ان خواتین کے لیے ویزا حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ یوکرین کی جنگ چیزوں کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ دنیا کی تمام تر توجہ یوکرینی مہاجرین پر مرکوز ہے اور دنیا افغانستان کو بھول رہی ہے۔‘‘

Published: undefined

افغان حکام پر دباؤ کم ہے

آٹھ ماہ قبل طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، صرف آئی سی سی، عالمی کرکٹ کی گورننگ باڈی نے خواتین کے کھیلوں کے بارے میں افغان موقف کی وجہ سے افغانستان کو بے دخل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن بعد ازاں آئی سی سی نے اپنی پوزیشن میں نرمی کی۔ ''وہ افغان خواتین کے کھیلوں کی نگرانی سمیت بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے لیے افغان مردوں کی ٹیم کی حمایت جاری رکھے گی۔‘‘

Published: undefined

ریزائی کھیلوں کی فیڈریشنوں کی کارروائی کو سمجھنے سے گریزاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں،''اب دباؤ ڈالنے کا بہترین وقت ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے بغیر اور خواتین کے کھیلوں کے بغیر کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

امید کی آخری کرن

ریزائی کے لیے ہار ماننا کوئی حل نہیں باوجود اس کے کہ انہیں اکثر اپنے آبائی ملک سے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں اس کی عادی ہوں۔جب کوئی ایتھلیٹ اپنا حوصلہ کھو دیتا ہے، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی ماں سے اس کا بچہ چھین لیں۔ میں بین الاقوامی برادری سے بھی کہہ رہی ہوں کہ وہ نہ صرف افغانستان میں خواتین کھلاڑیوں کی جانیں بچائیں بلکہ ان کی امید کو زندہ رکھنے کے لیے کوشش کریں۔ اب بھی امید کی آخری کرن روشن ہے اور اسے بجھنے نہیں دینا چاہیے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined