سماج

بھگوان کے نام پر بھارتی لڑکیاں جنسی غلامی کا شکار

بھگوان کی غلام کو دراصل دیو داسی کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر واقعات میں ایسی لڑکیاں پوجاری یا مندر کی دیکھ بھال کرنے والے اعلیٰ مذہبی رہنماؤں کی ہوس مٹانے کا کام کرتی ہیں۔

بھگوان کے نام پر بھارتی لڑکیاں جنسی غلامی کا شکار
بھگوان کے نام پر بھارتی لڑکیاں جنسی غلامی کا شکار 

ہندی زبان میں 'دیو' کا مطلب ہے بھگوان جبکہ 'داسی' خاتون غلام کے لیے مستعمل ہے۔ اس ترکیب یعنی دیو داسی کا مطلب ہوا، بھگوان کی غلام۔

Published: undefined

بھارت میں یہ ایک قدیمی روایت ہے کہ کچھ بچیوں کو دیو داسی بنا کر مندر کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد بھگوان کی خوشنودی حاصل کرنا اور اس لڑکی کو نیک عمل کرنے والی ایک پاکباز خاتون بنانا ہوتا ہے، ایک ایسی خاتون جو دنیا کی تمام آلائشوں سے پاک ہو۔

Published: undefined

لیکن ایسے زیادہ تر کیسوں میں دیو داسیاں پوجاری یا مندر سے وابستہ دیگر مذہبی یا منتظم افراد کے جنسی استحصال کا شکار بن جاتی ہیں۔ جنسی غلامی کی آگ میں جھونکی جانے والی ایسی زیادہ تر بچیاں ہندوؤں کے کاسٹ سسٹم کے تحت 'نچلی ذات' سے تعلق رکھنے والی ہی ہوتی ہیں۔

Published: undefined

ایسی ہی ایک مثال جنوبی ریاست کرناٹک کی ننگاوا کانال بھی ہیں۔ انتہائی غربت میں پیدا ہونے والی کانال نے ایک ایسا فیصلہ کیا، جس نے ان کی زندگی ہی بدل دی۔ دس بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹی تھیں۔

Published: undefined

کانال نے دیکھا کہ ان کی بڑی بہن نے گھر والوں کی کفالت کی خاطر کیا کیا جتن کیے اور آخری کار وہ اس مقصد کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہو گئیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کانال نے بتایا، "ہماری حالت کافی خراب تھی۔ ہمارے والدین کو کام بھی نہیں ملتا تھا اور ہم راتوں کو بھوکے ہی سو جاتے تھے۔"

Published: undefined

کانال کی عمر سات برس تھی، جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی مدد کریں گی۔ اگرچہ وہ باقاعدہ طور پر جسم فروشی کی طرف نہیں گئیں لیکن انہیں علم نہیں تھا کہ دیو داسی بننا بھی کچھ ایسا ہی ہو گا۔

Published: undefined

جنسی غلامی کی زندگی

بلوغت سے قبل ہی کوئی لڑکی دیو داسی بن سکتی ہے۔ ایک طرح سے اس کی شادی کسی بھگوان سے کر دی جاتی ہے۔ وہ پھر مندر کے لیے مختص ہو جاتی ہے اور کسی مرد سے شادی نہیں کرتی۔

Published: undefined

ہندو اساطیر میں دیوداسی کا تذکرہ صدیوں پرانی کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔ کرناٹک کے تاریخی شہر سوآن داتی میں یلما دیوی کا ایک مندر اس فرسودہ روایت کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، جہاں آج بھی معصوم بچیاں دیو داسیاں بنائی جاتی ہیں۔ یلما دراصل دیو داسیوں کی بھگوان مانی جاتی ہیں۔

Published: undefined

ہندو مذہب میں دیو داسی کو بھگوان اور عقیدت مندوں کے مابین ایک پل تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بھگوان کی غلام یہ خواتین اپنے رقص اور میوزک سے بھگوانوں کو خوش کرتی ہیں۔ مذہبی ایونٹس میں ان کی یہ پرفارمنس انہیں مردوں کی نگاہوں کا مرکز بھی بنا دیتی ہے۔

Published: undefined

یوں نہ صرف پوجاری بلکہ نام نہاد 'اونچی ذات' کے لوگ، زمین دار اور امیر مرد بھی ان دیو داسیوں کو سیکس کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ انیسویں صدی تک دیو داسی کو بھارتی معاشرے میں ایک اونچا رتبہ حاصل تھا۔

Published: undefined

خواتین کے حقوق کی علمبردار سمرتی پرمیچندر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بے شک ایک وقت تھا جب دیو داسیوں کو معاشرتی سطح پر ایک اعلیٰ مقام حاصل تھا، ''اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے والے مرد امیر تھے اور اعلیٰ رتبہ رکھتے تھے۔ تاہم جب برٹش سرکار نے اس پریکٹیس کو ممنوعہ قرار دیا تو دیو داسیاں بھی اپنا اثرورسوخ کھونے لگیں۔"

Published: undefined

دلت کمیونٹی کو زیادہ خطرہ لاحق

سن 2015 میں ایک بھارتی ادارے کی طرف سے بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کو جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ دور میں دیو داسی بنائی جانے والی 80 فیصد لڑکیوں کا تعلق دلت کمیونٹی سے ہی ہوتا ہے۔

Published: undefined

حقوق نسواں کی کارکن عائشہ رامیش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہندو ذات پات کے فرسودہ نظام میں 'نچلی ذات' یعنی دلت کمیونٹی کی لڑکیاں زیادہ تر غربت کی وجہ سے جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ دیو داسی بنائی جانے والی زیادہ تر لڑکیاں اسی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ آج کے جدید دور میں بھی بھارت میں کرناٹک کے علاوہ مہاراشٹر، اندھراپردیش اور تامل ناڈو میں دیو داسی بنانے کا قدیمی رواج ابھی تک برقرار ہے۔

Published: undefined

اگرچہ بھارت میں قانون سازی کے تحت اس پرانے رواج کو ممنوعہ قرار دیا جا چکا ہے تاہم یہ پریکٹس اس کے باوجود جاری ہے۔ ناقدین کے مطابق اگرچہ قانون سازی کی گئی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے قواعد و ضوابط ابھی تک وضع نہیں کیے جا سکے ہیں۔ بھارتی ریاست کرناٹک میں دیو داسیوں کی تعداد جاننے کی خاطر سن 2008 میں آخری مرتبہ سروے کیا گیا تھا، جس کے نتائج کے مطابق اس ریاست میں چھالیس ہزار سے زائد دیو داسیوں کا اندارج کیا گیا تھا۔

Published: undefined

ویمن رائٹس ایکٹیوسٹ سمرتی پرمیچندر کا کہنا ہے کہ اس سروے میں ہزاروں دیو داسیوں کا اندارج نہیں کیا گیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ ان خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ ماہاندا کانال بھی ایک ایسی ہی دیو داسی ہیں، جن کا نام اس حکومتی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

Published: undefined

پرمیچندر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ بھارت میں دیو داسیوں کی اصل تعداد جاننے کے لیے ایک نیا اور جامع سروے کیا جانا چاہیے۔ انہوں زور دیا کہ اگر حکومت مؤثر اقدام نہیں کرے گی تو بھارت میں بھگوان کے نام پر معصوم بچیوں کا جنسی استحصال کبھی نہیں تھمے گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined