سماج

ایران میں خواتین کی ’منظم ذلت کے خلاف بغاوت‘

ایران میں ہونے والے مظاہروں کی اصل محرک خواتین ہیں۔ وہ خود مختار زندگی کا خواب دیکھ رہی ہیں اور اپنے وقار کے لیے لڑ رہی ہیں۔

ایران میں خواتین کی ’منظم ذلت کے خلاف بغاوت‘
ایران میں خواتین کی ’منظم ذلت کے خلاف بغاوت‘ 

دنیا راد نے ایک ایسا انوکھا کام کرنے کی ہمت کی، جس کا خواب ایران میں بہت سی خواتین رات دن دیکھتی ہیں۔ روز مرہ کے لباس میں کیفے میں جا کر بے خوف و خطر بیٹھ کر فرائیڈ انڈے کا آرڈر دینا۔

Published: undefined

قریب ایک ماہ قبل دنیا راد نے ایک تصویر پوسٹ کی تھی۔ جنوبی تہران کے ایک روایتی طور پر نسبتاً زیادہ مذہبی علاقے جاویدیہ کے ایک کیفے میں اپنی اور اپنی بہن کی اس تصویر کے ساتھ اُس نے یہ متن تحریر کیا تھا،'' ناشتے کے وقت کام کے دوران ہمارا مختصر وقفہ۔‘‘ ایک روز بعد دنیا راد کی بہن نے لکھا کہ دنیا کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

Published: undefined

تہران سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ طالبہ مریم (فرضی نام ) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ آپ کو مضحکہ خیز لگ سکتا ہے لیکن ہم صرف ایک سادہ اور عام زندگی چاہتے ہیں۔ میرا خواب ہے کہ میں روزمرہ کے کپڑوں میں یونیورسٹی جا سکوں، اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جا سکوں، مسلسل گرفتاری سے ڈرے بغیر ہنستی کھیلتی ایک خوشگوار زندگی گزار سکوں۔‘‘

Published: undefined

بنیادی حقوق کی جنگ

پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی موت کے بعد سے ہونے والے مظاہروں کے پیچھے خواتین ہی محرک ہیں۔ خواتین کی 'منظم تضحیک‘ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا غم و غصہ ان کے متحرک ہونے کی اہم ترین وجہ ہے۔ ایک ایرانی مصنفہ اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن شادی امین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ غصہ ایرانی خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سے متحد کرتا ہے۔ کیونکہ ان تمام خواتین کو یکساں مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘

Published: undefined

شادی امین جرمنی میں رہتی ہیں اور ایران میں LGBTQ اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے لیے مہم چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ایرانی خواتین اپنے کم سے کم اور بنیادی حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ ریاستی طاقت نہ صرف اس بات کا تعین کرتی ہے کہ خواتین کو خود کو عوام کے سامنے کیسے پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہیے بلکہ اس نے 40 سال سے زیادہ عرصے سے خواتین شہریوں کو منظم طریقے سے حقِ رائے دہی سے محروم کر رکھا ہے۔ شریعت اور اسلامی قانون کے نام پر انہیں حقِ رائے دہی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ تمام ضابطوں اور قوانین کی تعمیل کرتے ہیں، مثال کے طور پر ہر روز سر پر اسکارف پہنتے ہیں، تو بھی وہ مہسا امینی کی طرح گرفتار ہونے اور مارے جانے کے خطرے میں ہی رہتی ہیں۔‘‘

Published: undefined

ایرانی پولیس نے 22 سالہ نوجوان کی موت کا ذمہ دار ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ جو بھی اس پر یقین نہیں کرتا اور سڑکوں پر پرامن احتجاج میں شامل ہوتا ہے اسے سکیورٹی فورسز کی گولی کا نشانہ بننے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ 32 سالہ غزالیہ چلبی کی طرح۔ ایک ہفتہ قبل، ایک ویڈیو آن لائن منظر عام پر آئی تھی جسے غزالیہ نے 21 ستمبر کو شمالی ایران میں اپنے آبائی شہر امول میں ایک مظاہرے کے دوران اپنے سیل فون سے ریکارڈ کیا تھا۔ ویڈیو کے 20 ویں سیکنڈ پر، اُس کی چیختے ہوئے آواز سنی جا سکتی ہے جس میں وہ کہہ رہی ہے، ''خوفزدہ مت ہو۔ ہم سب ساتھ ہیں۔‘‘ بس یہ اُس کی آخری آواز تھی۔ پھر اسے گولی مار دی گئی۔ اس کا فون زمین پر گرا، تصاویر کھنچتی رہیں اور صدمے سے چور مظاہرین چیخ چیخ کر اس سے پوچھتے رہے،''کیا وہ زندہ ہے۔‘‘

Published: undefined

آزاد زندگی کا خواب

ایرانی مصنفہ اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن شادی امین کا کہنا ہے کہ ایران میں خواتین سکیورٹی فورسز کی''بربریت‘‘ سے واقف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا،''اس کے باوجود وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ اگر سیاسی نظام اسی طرح چلتا رہا تو ان کا مستقبل اچھا نہیں ہو گا۔ وہ سب تعلیم یافتہ ہیں اور انہیں مکمل شعور ہے، وہ اپنے معاشرے کے عدم مساوات کو اب مزید برداشت نہیں کریں گی۔‘‘ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایران میں 60 فیصد طالب علم خواتین ہیں۔ تاہم لیبر مارکیٹ میں خواتین کا تناسب صرف 15 فیصد ہے۔

Published: undefined

طاقت کے مراکز سے خواتین کی دوری

خواتین ناراض ہیں کیونکہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود انہیں ایک آزاد اور خود مختار زندگی گزارنے کا موقع مشکل سے ہی ملتا ہے۔ اس حقیقت سے جُدا کہ شریعت پر مبنی قوانین خواتین کو نابالغ شہری بناتے ہیں اور عورت کی زندگی کے تمام اہم فیصلے اس کے باپ یا شوہر کے حوالے کر دیتے ہیں، وہ اپنی جنس کی وجہ سے منظم طریقے سے پسماندہ رکھی جاتی ہیں۔

Published: undefined

ورلڈ اکانومک فورم کی ایک حالیہ تحقیق سے بھی یہ حقائق سامنے آئے ہیں۔ جینڈر گیپ رپورٹ 2022 ء میں ایران بین الاقوامی مقابلے میں 146 میں سے 143 ویں نمبر پر ہے۔ ڈبلیو ای ایف کی رپورٹ میں تعلیم، صحت اور سیاست کے شعبوں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور ان میں صنفی مساوات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس تحقیق میں خاص طور پر خواتین کی سیاسی شرکت درجہ بندی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

Published: undefined

مثال کے طور پر سیاست میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت کی وجہ سے جرمنی ایک درجے اوپر دسویں نمبر پر چلا گیا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران میں طاقت کے مرکزی ڈھانچے میں خواتین کی کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ مذہبی رہنما بھی نہیں بن سکتیں۔ انہیں صدر کے لیے انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ہے، انہیں عدلیہ سے باہر رکھا گیا ہے اور خواتین کو ماہرین کی کونسل، گارڈین کونسل یا ثالثی کونسل جیسے اہم اداروں کا رکن بننے کی اجازت بھی نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined