پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین ایک مرتبہ پھر زیر بحث ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک مشتعل مسلم ہجوم نے پنجاب کے مشرقی علاقے جڑانوالہ میں دو مسیحیوں پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگانے کے بعد متعدد گرجا گھروں اور مسیحیوں کی رہائشوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔
Published: undefined
پاکستان میں توہین مذہب کے الزام کے بعد اکثر لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور پھر تشدد کا سلسلہ شروع یو جاتا ہے۔ ماضی میں توہین مذہب ہی کے الزامات کے تحت ہجوم متعدد واقعات میں ملزمان کو بے دردی سے قتل کر چکا ہے۔
Published: undefined
ان قوانین میں پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کرنے والوں کے لیے موت یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ برطانوی نوآبادیاتی دور میں بنائے جانے والے ان قوانین کا استعمال اکثر غلط ہوتا ہے۔ ذاتی دشمنی یا عناد کا بدلہ لینے کے لیے کمزور اقلیتی گروہوں، یہاں تک کہ خود مسلمانوں کو بھی اسی قانون کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے۔
Published: undefined
کئی ایکٹیویسٹ بتاتے ہیں کہ اس خطے میں نجی حیثیت میں بدلہ لینے کی کارروائیوں کو سراہنے کی ایک تاریخ ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مثال کے طور پر غازی علم الدین کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنما ایسے معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہنے کی بجائے ہجوم کو اکسانے یا ہجوم کی قیادت کرنا اپنے لیے آسان سمجھتے ہیں تاکہ وہ اپنی ذاتی ساکھ اور اثر و رسوخ کو قائم رکھ سکیں۔‘‘
Published: undefined
علم الدین نے سن 1929 میں پاکستان کے قیام سے پہلے ایک کتب فروش مہاشے راج پال کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔ علم الدین کو ان کے جرم کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی تھی لیکن پاکستان کے بعض حلقوں میں انہیں اب بھی ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 2011 ء میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس باڈی گارڈ ممتاز قادری کا موازنہ بھی ان سے کیا جاتا ہے۔ تاثیر پنجاب کے لبرل گورنر تھے اور وہ توہین مذہب کے قوانین میں تبدیلی چاہتے تھے۔
Published: undefined
اقلیتی حقوق کی ایک کارکن روتھ سٹیفن کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''تعلیم کی کمی کی وجہ سے سماجی ڈھانچے میں مذہبی منافرت کا گہرا نشہ موجود ہے اور طلباء کو نصاب کے ذریعے اس کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ وہ عوام، جو آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق سے پوری طرح واقف نہیں ہیں، وہ اپنے ذاتی انتقام کے لیے توہین مذہب کے قوانین کے استعمال سے پوری طرح واقف ہیں۔‘‘ اگرچہ کبھی عدالتی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا لیکن عوام کی طرف سے ایسی سزائیں دینے کا رجحان عام ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق 1990 ء سے اب تک توہین مذہب کے الزامات کے تناظر میں کم از کم 85 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔
Published: undefined
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ توہین مذہب کے 90 فیصد سے زیادہ الزامات جھوٹے تھے لیکن روتھ سٹیفن کا الزام ہے کہ ریاست کمزور اقلیتوں کی حفاظت کی بجائے الزام لگانے والوں کا ساتھ دے کر جواب دیتی ہے۔ لیکن جبران ناصر کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پولیس خود اس قابل نہیں ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی تشدد کو روک سکے۔ جبران ناصر نے بتایا، ''چھوٹے عہدوں والے پولیس اہلکاروں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
انسانی حقوق کے کارکنوں نے زور دیا ہے کہ پالیسی سازوں کو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ توہین مذہب کے قوانین کو ختم کرنے کے لیے ایک فریم ورک تیار کیا جا سکے۔ روتھ اسٹیفن کہتی ہیں، ''اسلامی حلقوں کی شدید مزاحمت کے درمیان توہین مذہب کے قوانین میں اصلاحات یا انہیں منسوخ کرنے کے لیے ہمت کی ضرورت ہے۔‘‘
Published: undefined
لیکن جبران ناصر کے خیال میں مذہبی اقلیتوں پر ہجوم کے ایسے حملوں کی وجہ توہین مذہب کے قوانین نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''میں ذاتی طور پر نہیں سمجھتا کہ یہ ایسے قوانین ہیں، جو ہجوم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر ہجومی تشدد کا عذر یہ ہوتا ہے کہ پولیس نے توہین مذہب کے ملزم کے خلاف کارروائی کرنے میں تاخیر کی ہے۔‘‘
Published: undefined
وہ مزید کہتے ہیں، ''اگر قوانین بالکل موجود نہیں ہوں گے تو ہجوم کو یہ زیادہ یقین دہانی کرائی جائے گی کہ ریاست نے توہین مذہب کرنے والوں کو سزا دینے کی ذمہ داری سے مکمل طور پر دستبرداری اختیار کر لی ہے، لہذا ان قوانین کے خاتمے سے تشدد کرنے والے ہجوم کی صرف حوصلہ افزائی ہو گی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined