سماج

ٹک ٹاک: عالمی حکام کی توجہ کا مرکز کیوں؟

چین کی ویڈیو اسٹریمنگ ایپ، ٹک ٹاک کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت نے دنیا بھر کے قانون سازوں اور پرائیویسی کے معاملات دیکھنے والوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

ٹک ٹاک: عالمی حکام کی توجہ کا مرکز کیوں؟
ٹک ٹاک: عالمی حکام کی توجہ کا مرکز کیوں؟ 

جہاں ایک طرف نوجوانوں میں یہ ویڈیو اسٹریمنگ ایپ مقبول تر ہوتی جا رہی ہے وہیں دوسری جانب عالمی سطح پر قانون ساز اس بحث میں مصروف ہیں کہ اگر وہ ٹک ٹاک کو غیر قانونی قرار نہیں دے سکتے تو اسے سخت حدود کا پابند کس طرح بنایاجائے۔

Published: undefined

گو یورپی یونین کی جانب سے نئی قانون سازی کی جارہی ہے جس کے تحت ٹک ٹاک کو نقصان دہ مواد پر سختی سے نظر رکھنے پر مجبور کیا جاسکے گا تاہم امریکا سے جاپان تک دنیا کے کئی ممالک اس غور و فکر میں ہیں کہ اس ایپ کو مزید ریگولیٹ کریں یا بھارت کی طرح ٹک ٹاک پر مکمل پابندی عائد کردیں۔

Published: undefined

ضابطہ کاروں کو خدشہ ہے کہ چینی حکومت اس ایپ کو اپنے مفادات کے فروغ کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ بیجنگ حکومت صارفین کے ڈیٹا تک خفیہ رسائی حاصل کرتے ہوئے گمراہ کن معلومات پھیلا سکتی ہے۔

Published: undefined

ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی برسلز کی غیر منافع بخش تنظیم، ایکسس ناؤ (Access Now) سے منسلک ماہر ایسٹیل ماس، کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ''چینی حکومت کی جانب سے ممکنہ نگرانی کے جائز خدشات موجود ہیں۔ ایسے میں ٹک ٹاک پر خصوصی طور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دنیا میں تیزی سے پھیلتا ہوا سوشل میڈیا ہے اور اس کے صارفین میں اکثریت کم عمر افراد کی ہے۔‘‘

Published: undefined

ٹک ٹاک کی مالک کمپنی، ByteDance کو صارفین کی معلومات اکھٹا کرتے ہوئے انہیں استعمال کرنے کے طریقہ کار پر پہلے ہی کافی عرصے سے کڑی جانچ پڑتال کا سامنا ہے۔ تاہم ضابطہ کاروں کی جانب سے کمپنی پر دباؤ میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب گزشتہ برس دسمبر میں یہ بات سامنے آئی کہ ByteDance کے ملازمین نے پریس کو لیک کی جانے والی معلومات کی تفتیش کے لیے مغربی صحافیوں کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل کی۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ٹک ٹاک کی ترجمان نے اس واقعے کو ''چند مخصوص افراد کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی‘‘ کا واقعہ قرار دیا اور کہا کہ اب وہ افراد ByteDance کے ملازم نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد کمپنی نے صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کو مزید سخت کر دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹک ٹاک کے صارفین کا ڈیٹا چین سے باہر موجود مراکز میں محفوظ کیا جاتا ہے تاہم چین میں موجود چند ہی ملازمین کو اس تک رسائی دی گئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بیجنگ حکومت نے نہ تو کبھی ٹک ٹاک صارفین کا ڈیٹا طلب کیا اور نہ ہی کبھی ایسی معلومات انہیں مہیا کی گئیں۔

Published: undefined

ٹک ٹاک کس طرح مقبول ہوا

انٹرنیٹ کی تاریخ میں کوئی ایپ اتنی تیزی سے مقبول نہیں ہوئی جتنی کہ ٹک ٹاک۔ چند برسوں کے اندر ہی یہ ایپ خبریں اور معلومات فراہم کرنے والا دنیا کا معروف ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن گیا جس کے صارفین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

Published: undefined

سن 2018 میں ByteDance نے چینی ایپ Douyin کی طرز پر عالمی مارکیٹ میں ٹک ٹاک کو لانچ کیا۔ ستمبر 2021 میں پلیٹ فارم نے اعلان کیا کہ اس کے ماہانہ سرگرم صارفین کی تعداد ایک بلین تک پہنچ گئی ہے۔ فیس بُک کو یہ ہی سنگ میل طے کرنے میں آٹھ برس لگے۔ ڈاون لوڈ کے اعداد وشمار کے مطابق اس کے صارفین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم یہ تعداد کتنی ہے، ٹک ٹاک کی جانب سے یہ معلومات کمپنی کی پالیسی کے باعث فراہم نہیں کی گئی ہے۔

Published: undefined

تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ ٹک ٹاک کا 'فار یو‘ پیج اس ایپ کی مقبولیت کے پیچھے چھپا راز ہے۔ یہ پیج ویڈیوز کا ایسا سلسلہ دیتا ہے جو ہر صارف کو مختلف انداز میں نظر آتا ہے۔ صارف جیسے ہی اس ایپ کو کھولتے ہیں تو یہ خودکار طریقے سے کام کرتے ہوئے صارف کی توجہ سے منسلک مواد کا تجزیہ شروع کر دیتا ہے مثلا صارف کس طرح کا مواد دیکھنا چاہتا ہے یا کتنی دیر کوئی ویڈیو دیکھ رہا ہے۔ اس طرح سے کچھ ہی وقت میں اس کا الگوردم یہ سیکھ لیتا ہے کہ استعمال کرنے والے صارف کی دلچسپی کا باعث کس انداز کا مواد ہے۔

Published: undefined

کیا ٹک ٹاک ہائی جیک ہو سکتا ہے؟

خبروں تک رسائی کے لیے ٹک ٹاک کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے اور ڈی ڈبلیو سمیت کئی بڑے خبر رساں ادارے اس پلیٹ فارم پر باقاعدگی سے پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ تاہم تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ اس پلیٹ فارم کے طاقتور الگوردم کو جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

امریکی تحقیقاتی ادارے ، ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرس رے سمیت دیگر امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ خصوصی طور پر بیجنگ حکومت اس ایپ پر جاری مواد کو غلط انداز میں استعمال کرتے ہوئے رائے عامہ پر اثرانداز ہونے یا بیرون ممالک سماجی انتشاری کو پھیلانے نے کے استعمال کر سکتی ہے۔

Published: undefined

ٹک ٹاک کی ترجمان نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ اس پلیٹ فارم کی کوشش رہی ہے کہ غلط معلومات کے پھیلاؤ کو زیادہ سے زیادہ مؤثر انداز سے قابو کیا جائے۔ انہوں نے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا کہ ٹک ٹاک کی جانب سے حقائق جانچنے والی مختلف تنظیموں کے ساتھ پارٹنرشپ کے علاوہ حکومتی یا اس کا اثر رسوخ رکھنے والے اکاؤنٹ سے ویڈیو اپ لوڈ ہونے پر صارفین کو مطلع کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

ضابطہ کاری

یورپی یونین کی جانب سے جلد ہی ایسی قانون سازی کا اطلاق کیا جائے گا جس کے مطابق سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارمز پر لازم ہوگا کہ وہ یورپی یونین کے منتخب کردہ تجزیہ کاروں کو اپنے اندرونی کام کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ تاہم ابھی یہ طے نہیں کیا گیا کہ کیا ان پلیٹ فارمز میں ٹک ٹاک بھی شامل ہے یا نہیں۔

Published: undefined

دوسری جانب امریکی ایوان نمائندگان میں اس ماہ قانون سازوں کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے ایک بل پر ووٹنگ ہو گی۔ اگر اکثریت رائے سے یہ بل پاس ہو گیا تو امریکی صدر جو بائڈن کی قانونی انتظامیہ ٹاک ٹاک پر وسیع تر قومی مفادات کے تناظر میں ملک بھر میں پابندی عائد کر سکتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined