آج کے سائنسی دور میں انسان بہت سی ایسی چیزیں رد کر چکا ہے جو عقل کے مضبوط پنجے کی گرفت میں نہیں آتیں۔ لیکن محبت کا منہ زور گھوڑا دیومالائی تصورات کو لادے سر پٹ دوڑے چلا جا رہا ہے۔
Published: undefined
محبت کی شدت کے بارے میں ارتقائی نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں، ''ہمارے قدیم آباؤ و اجداد نے اپنی بقا اور نسل کو آگے بڑھانے کے لیے جو قدم اٹھائے ہماری آج کی زندگیاں انہی کی بازگشت ہیں۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ ارتقائی مراحل میں انسانی دماغ نے ایسی چیزوں کو ترجیح دی جو بقا اور نسل کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری تھیں۔ مثال کے طور پر زندہ رہنے کے لیے غذائیت سے بھرپور غذائیں اور تولیدی عمل اور پرورش کے لیے صحت مند ساتھی۔
Published: undefined
ارتقائی نفسیات کے بنیاد گزاروں میں سے ایک ڈاکٹر ڈیوڈ بس کے مطابق ارتقائی مراحل میں عورت اور مرد کو موافقت پذیری کے مختلف چیلنجز درپیش تھے۔ یہ جاننے کے لیے کہ مرد اور عورت جنسی تعلقات سے پہلے کس طرح کی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں اور ساتھی کا انتخاب کس بنیاد پر کرتے ہیں، ڈاکٹر بس نے 1989ء میں 37 مختلف ثقافتوں سے منتخب کردہ 10 ہزار سے زائد افراد پر تحقیق کی۔
Published: undefined
ڈاکٹر بس کے مطابق عورت کے سامنے حمل، اپنی چھاتیوں میں دودھ کے لیے نسبتاً بہتر غذا اور پھر طویل مدت تک بچے کی پرورش کی ذمہ داریاں نبھانے کی مشکلات تھیں (خیال رہے انسانی بچہ دیگر جانوروں کی نسبت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کافی زیادہ وقت لیتا ہے)۔ اس کے برعکس مرد کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ جس بچے کو وہ اپنا سمجھ رہا ہے کیا واقعی اسی کا ہے؟ کیوں کہ عورت کو کسی بھی مرد سے حمل ہو سکتا تھا اس لیے مرد تذبذب کا شکار رہتا کہ جس بچے کی خوراک اور حفاظت کے لیے وہ سخت مشقت کاٹ رہا وہ جینیاتی طور پر اسی کی اولاد ہے بھی کہ نہیں۔
Published: undefined
ڈاکٹر شمٹ اور ڈاکٹر بس کا 2011ء میں شائع ہونے والا مشترکہ تحقیقاتی کام 'ارتقائی نفسیات اور فیمینزم‘ بہت صراحت سے جنسی ملاپ کے لیے خواتین اور مردوں کی حکمت عملی پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کے مطابق اپنی مشکلات کے حل کے لیے خواتین ایسے مرد ساتھیوں کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرتیں جو وفادار ہو اور اپنے بچے کے لیے خوراک اور تحفظ فراہم کرنے کے قابل اور رضامند ہو۔ جبکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ جس بچے کی وہ پرورش کر رہے ہیں انہی کی جینیاتی اولاد ہے، مردوں نے بھی ایسی عورتوں کو منتخب کرنا شروع کر دیا جو وفادار ہوں اور جنسی تعلقات فقط ان سے رکھتی ہوں۔
Published: undefined
یوں مرد اور عورت کے لیے ضروری تھا کہ وہ کم از کم اس قدر طویل المدتی تعلق قائم کریں جس میں بچے کی پرورش ممکن ہو سکے۔ مگر وہ کونسی چیز تھی جو دو مختلف انسانوں کو آپس میں باندھنے کی مقناطیسی قوت رکھتی ہو؟ بہت سے نظریہ سازوں کا موقف ہے کہ تب محبت ہماری زندگی کا حصہ بنی اور انسانی ارتقاء میں نہایت بنیادی کردار ادا کیا۔
Published: undefined
اگرچہ جنسی عمل کے نتیجے میں حاصل ہونے والی بے پناہ لذت پہلے سے موجود تھی تاکہ نسل آگے بڑھتی رہے لیکن یہ کسی بھی طرح طویل المدتی تعلقات سے مشروط نہ تھی۔ سو ایسا بندوبست ضروری تھا جو انسانوں کو وقتی لذت کے ساتھ ساتھ لمبے عرصے کے لیے آپس میں جوڑے رکھے۔
Published: undefined
محبت کے موضوع پر کئی کتابوں اور تحقیقی مضامین کی خالق ہیلن الزبتھ فشر کے مطابق جنسی عمل سے ہمارے دماغ میں ٹیسٹوسٹیرون اور ایسٹروجن کا اخراج ہوتا ہے جو کسی طویل بندھن کی طرف راغب تو کر سکتے ہیں مگر بذات خود اس کا سبب نہیں بنتے۔ جبکہ ڈوپامین اور آکسیٹوسن جیسے ہارمونز محبت اور شدید جذباتی وابستگی کے نتیجے میں خارج ہوتے ہیں جو ہمیں طویل مدتی تعلقات پر مجبور کرتے ہیں۔
Published: undefined
گویا محبت انسانوں کو لمبے عرصے کے لیے تعلق کی ڈور سے باندھنے کے لیے آلہ کار تھی۔ یہ وہ مقناطیس تھا، جس نے دو مختلف انسانوں کو اپنی کشش کے سبب جوڑ کے رکھا تاکہ وہ وقتی لذت تک محدود رہنے کے بجائے اپنے بچے کی پرورش کرنے تک ساتھ رہیں۔ ایک ایسی جگہ جہاں مردوں کے لیے بہت سی خواتین اور خواتین کے لیے بہت سے مرد موجود تھے محبت نے مزید دو اور طریقوں سے بھی طویل بندھن میں مدد فراہم کی۔
Published: undefined
جب کوئی فرد اپنے ساتھی کے ساتھ مطمئن ہو تو اسے آس پاس کے دیگر افراد اپنی جسمانی خوبصورتی کے باوجود کم پرکشش محسوس ہوتے ہیں۔ محبت کسی بھی ایسے لمحے دفاعی حربے کے طور پر کام کرتی رہی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
Published: undefined
دوسرا محبت اپنے ساتھ حسد لائی جسے بظاہر منفی جذبہ سمجھا جاتا ہے لیکن ارتقائی نفسیات کے ماہرین اسے ارتقائی مراحل میں انتہائی کارآمد تصور کرتے ہیں۔ اس کے سبب مرد زیادہ چوکس رہتا اور اپنے ساتھی کو بہتر خوراک اور تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتا تاکہ وہ اسے کمزور سمجھ کر چھوڑے نہیں۔ جبکہ عورت اس کے بچے کی پرورش زیادہ بہتر طریقے سے کرتی تاکہ وہ اپنی نسل آگے بڑھانے کے لیے کسی اور کی جانب راغب نہ ہو۔
Published: undefined
مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے انسانوں کے طویل المدتی تعلقات باقاعدہ شادی کی رسم میں تبدیل ہوئے۔ جبری شادیوں اور طے شدہ رشتوں کی طویل تاریخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ آج بھی دو انسانوں کو بندھن میں باندھنے کے لیے محبت کا کردار انتہائی نمایاں ہے۔
Published: undefined
2010 میں Pew ریسرچ سینٹر کے امریکہ میں منعقد کردہ سروے کے مطابق 93 فیصد شادی شدہ افراد نے شادی کے فیصلے کی بنیادی وجہ محبت کو قرار دیا۔ ایسے افراد جنہیں ابھی شادی کا موقع نہیں ملا ان میں سے 84 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ محبت کی وجہ سے ہی ایسا کریں گے۔ اگرچہ مختلف معاشروں میں یہ اوسط مختلف ہے لیکن رجعت پسند تصور کیے جانے والے خطوں میں بھی یہ رجحانات تیزی سے بدل رہے ہیں جو نہایت خوش آئند بات ہے۔
Published: undefined
ہمارے عہد کا ایک اور اہم رجحان ڈیٹنگ کلچر ہے، جو شادی سے پہلے ایک سے زائد لوگوں کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا وسیع موقع فراہم کرتا ہے۔ مگر اس میں بھی پہلی چیز اعتماد اور وفاداری ہے۔آپ مذہبی، ثقافتی یا قانونی مجبوری کے تحت اپنے رشتے کو شادی کا نام دیں یا نہ دیں اصل چیز جذباتی وابستگی ہے۔ شدید جذباتی وابستگی جس کے بغیر شادی اور ڈیٹنگ دونوں بے رنگ ہو کر رہ جائیں۔ آج بھی محبت کا تند و تیز دریا اپنی پوری روانی سے بہتا اور اَن گنت زندگیاں سیراب کرتا چلا جا رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined