ہمارے ہاں شاعری تو انتظار کی اذیت سے بھری پڑی ہے۔ کبھی محبوبہ کی راہ دیکھتی آنکھیں، کبھی کسی چٹھی کا انتظار۔ کہتے ہیں کہ انتظار میں ایک پل ایک صدی برابر ہو جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وقت کے یوں تھم جانے کے درپردہ وجوہ کیا ہیں؟ محققین کہتے ہیں کہ اس کی ایک بنیادی وجہ نفسیاتی ہے۔
Published: undefined
انتظار کی اذیت کسی ایک خطے کے انسانوں یا ثقافت تک محدود نہیں بلکہ مشرق کی طرح مغربی ادب میں بھی انتظار کو ایک 'منفی کیفیت‘ کے طور پر برتا گیا ہے۔
Published: undefined
وقت سرمایہ ہے۔ شاید سب سے اہم سرمایہ۔ اگر آپ کو کسی ریستوران میں ٹیبل خالی ہونے کا انتظار کرنا ہو، کوئی بس یا جہاز تاخیر کا شکار ہو جائے، کسی نے وقت دیا ہو اور وقت پر نہ پہنچے، تو ایسے میں جیسے یہ سرمایہ کھوتا نظر آتا ہے۔ بے صبری شاید اسی لیے انتظار سے جڑی کیفیت ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
برلن میں مقیم ماہر نفسیات کلاؤڈیا پیپیل کی ایک کتاب کا نام ہے، ''انتظار کا فن‘‘۔ یہ کتاب 2019 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں عہدحاضر کے مختلف فوٹوگرافروں اور گرافک آرٹسٹس کا کام نثر پاروں، مضامین اور انٹرویوز کے ساتھ جمع کیا گیا ہے، جس کا بنیادی مدعا ہے، انتظار۔
Published: undefined
پیپیل کہتی ہیں، ''بہت سی انتظار گاہیں زمان و مکان سے ہمارے ربط کی عکاس ہیں۔ یہی یقین و گمان کا احساس ہمیں اذیت کا شکار بناتا ہے۔ ‘‘
Published: undefined
پیپل کی کتاب میں مؤرخ وینسنٹ کنیخٹ لکھتے ہیں، ''انتظار وہی کروا سکتا ہے، جو طاقت رکھتا ہے۔‘‘ محقق گائسلر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انتظار کروانا 'طاقت کے اظہار کا ایک آلہ بھی ہے۔‘‘
Published: undefined
پیپیل کے مطابق، ''انتظار کرتے ہوئے ہم گزرتے وقت کو لمحہ بہ لمحہ محسوس کرتے ہیں۔ ہم اس بات پر بھی شکایت کرتے ہیں کہ وقت نہیں ہے کہ سکون سے ایک پل بیٹھ سکیں اور دوسری جانب انتظار کے پل میں یوں سکون سے بیٹھتے ہیں، تو اس سکون سے بیٹھنے پر بھی شکایت ہے۔ ہم انتظار کرواتے تو ہیں، مگر کوئی ہمیں انتظار کروائے، تو ہمیں بالکل پسند نہیں آتا۔‘‘
Published: undefined
پھر انتظار بھی ایک طرز کا نہیں، انتظار بھی تہہ بہ تہہ ہے۔ ہم ہر وقت ہی کسی نہ کسی انتظار کا حصہ ہیں۔ کوئی مذہبی کسی شخصیت کسی اوتار کا منتظر ہے، کوئی موسیقار ستار کی رگوں کو انگلیوں سے محسوس کرنے کے انتظار میں ہے، کسی بچے کو اپنی سال گرہ یا عید یا کرسمس کا انتظار ہے، کوئی وعدہ ایفا ہو جانے کا منتظر ہے۔ 'وقت سرمایہ ہے‘ کا چکر سماج کے ایک ایک کونے میں بسا ہوا ہے اور انتظار نفسیاتی طور پر اس سرمایے کے کھو جانے کے تلخ اور منفی احساس سے جڑ چکا ہے۔
Published: undefined
گائسلر تو یہ تک کہتے ہیں کہ انتظار کی کیفیت یا وقت گزرنے کی حالت کا دارومدار بھی اس بات پر ہے کہ انتظار کس سے جڑا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز