آج کوئی مسجد ایسی نہیں جہاں لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہ دی جاتی ہو اور کوئی مذہبی جلسہ ایسا نہیں جہاں شعلہ بیانی کے جوہر دکھانے کے لیے فل بلاسٹ اسپیکر استعمال نہ ہوتے ہوں۔
Published: undefined
جب ٹی وی متعارف ہوا تو اسے عریانی و فحاشی پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ دیواروں پر خوب مذمتی نعرے لکھے گئے۔ آج تک کئی بستیاں ایسی ہیں جہاں کسی متنازعہ ٹی وی پروگرام پر احتجاج کے لیے تصویر چھپوانے کی خاطر ٹی وی سیٹ توڑے جاتے ہیں یا نذرِ آتش کر دیے جاتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ صرف وہی ٹی وی سیٹ توڑے جاتے ہیں جو پہلے ہی سے ناکارہ ہوں۔
Published: undefined
لگ بھگ پندرہ برس پہلے رپورٹنگ کے سلسلے میں خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے ہنگو جانا ہوا۔ وہاں مقامی اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ نے یہ کہانی سنائی کہ مضافاتی علاقے صدا کا ایک مکین دبئی سے چھٹیوں پر واپس آیا تو اپنے ساتھ رنگین ٹی وی سیٹ بھی لے آیا۔ مگر جرگے نے فیصلہ کیا کہ گاؤں میں ٹی وی نہیں آئے گا، اس سے بچے خراب ہوں گے۔
Published: undefined
اس فیصلے کو یقینی بنانے کے لیے دبئی پلٹ بچارے کا ٹی وی سنگسار کر دیا گیا۔ اگلے برس جب وہ دوبارہ چھٹی لے کے آیا تو گھر جانے سے پہلے ساتھ والے گاؤں کے اسلحہ بازار سے افغان جنگ سے اسمگل ہونے والی طیارہ شکن گن خریدی اور اپنے گھر کی چھت پر نصب کر دی اور پھر وہ ٹی وی سیٹ بھی لے آیا ۔اس بار سنگساری کی نوبت نہ آئی اور اس کی دیکھا دیکھی اور گھروں سے بھی ٹی وی نشریات کی آواز آنے لگی۔
Published: undefined
آج سب سے زیادہ مذہبی پروگرام بشمول خصوصی رمضان اور محرم نشریات ٹی وی کی مرہونِ منت ہیں۔ بہت سے علما اس آلے کے بل پر سیلیبریٹی بن چکے ہیں اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد سینکڑوں سے بڑھ کے لاکھوں میں ہے۔
Published: undefined
میرا اپنا خیال تھا کہ مذہبی طبقے میں بھلے لاؤڈ اسپیکر اور ٹی وی کا میڈیم بوجوہ مقبول ہو گیا ہو مگر فلم کا میڈیم کبھی مقبول نہیں ہوگا۔ کیوں کہ فلم کی رسائی ٹکٹ کی محتاج اور ٹی وی کے مقابلے میں محدود ہے۔ لیکن دو ہزار انیس میں میرا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا جب سرمد کھوسٹ کی فلم 'زندگی تماشا‘ پر ریلیز سے قبل ہی تحریکِ لبیک کی جانب سے توہینِ مذہب کا الزام لگ گیا۔
Published: undefined
حالانکہ جس سینسر بورڈ نے اسے قبولیت کا سرٹیفکیٹ جاری کیا اسے ایسا کچھ محسوس نہیں ہوا۔ پھر بھی مذہبی جماعت کے دو نمائندوں کو سنسر بورڈ کے ایک اضافی اجلاس میں بٹھا کر فلم دکھلائی گئی تو انہیں بھی لگا کہ سننے اور دیکھنے میں بہت فرق ہے۔ اس کے باوجود یہ فلم چار برس سے ڈبے میں پڑی ہے، کیوں کہ ریاست اپنے سر کوئی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں۔
Published: undefined
یہی کچھ پچھلے ہفتے ٹرانس جینڈرز کے موضوع پر بننے والی فلم 'جوائے لینڈ‘ کے ساتھ ہوا۔ اتفاق سے اس کے پروڈیوسر بھی سرمد کھوسٹ ہیں۔ اسے نہ صرف وفاقی بلکہ پنجاب اور سندھ کے سینسر بورڈز نے بھی ملک گیر نمائش کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ لیکن جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی اسے متنازعہ ٹرانس جینڈر بل کی منظوری کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی سازش قرار دے دیا۔
Published: undefined
انہوں نے یہ دلیل بھی دی کہ حالانکہ انہوں نے خود یہ فلم نہیں دیکھی مگر سنا ہے کہ اس میں ہیرو کا نام حیدر ہے (جو کہ نہیں ہونا چاہیے) اور جس ٹرانس جینڈر کردار سے اسے محبت ہو جاتی ہے اس کا نام بیبا ہے، اور بیبا مرد کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دراصل مرد سے مرد کی محبت کو قابلِ قبول کروا کے شعائرِ اسلامی کی دھجیاں اڑانے کی سازش ہو رہی ہے اور یہ کسی صورت منظور نہیں۔
Published: undefined
جب کہ سینسر بورڈ کے کسی رکن کو یہ منطق سمجھ میں نہیں آئی۔ پھر بھی وزیرِاعظم شہباز شریف نے پانچ وزیروں پر مشتمل ایک آٹھ رکنی جائزہ کمیٹی بنا دی، جس نے فلم دیکھنے کے بعد رائے دی کہ مجموعی طور پر اس فلم کی کہانی مشرقی و مذہبی اقدار سے متصادم نہیں، لہذا اس کی نمائش میں کوئی مضائقہ نہیں۔
Published: undefined
پھر اچانک سے پنجاب میں مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کو جھرجھری آئی اور اس نے صوبائی سینسر بورڈ کے ہی جاری کردہ سرٹیفکیٹ کو مسترد کرتے ہوئے صوبے کی حدود میں جوائے لینڈ کی نمائش پر تاحکمِ ثانی پابندی لگا دی۔
Published: undefined
چونکہ یہ فلم کان فلمی میلے میں ایوارڈز جیتنے کے بعد آسکر کی غیر ملکی کیٹگری کے لیے بھی نامزد ہو چکی ہے لہذا گمان ہے کہ بالاخر عقل فتح یاب ہو جائے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ صورت بنے گی کہ اسلام آباد کی وفاقی حدود اور سندھ میں تو یہ فلم حلال ہے مگر راولپنڈی کی صوبائی حدود میں یہ فلم حرام سمجھی جائے گی۔
Published: undefined
یعنی یہ فلم بھی وہ شتر مرغ بن جائے گی جسے پنجاب میں قانونی طور پر پالتو جانور قرار دے کر اس کے گوشت کی خرید و فروخت ہو سکتی ہے۔ مگر سندھ میں شتر مرغ کا درجہ جنگلی جانور کا ہے لہذا اس کا گوشت نہیں بیچا جا سکتا۔
Published: undefined
پاکستان میں فلمیں انیس سو اناسی کے موشن پکچرز آرڈینننس کے تحت سنسر کی جاتی ہیں۔ یہ قانون ضیا دور میں بنا تھا۔ اس کی شق نو کے تحت کسی بھی فلم پر عظمتِ اسلام، نظریہ پاکستان اور مقامی ثقافتی اقدار کے مفاد میں پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ چونکہ عظمتِ اسلام ، نظریہِ پاکستان اور مقامی ثقافتی اقدار کی کوئی ایک لگی بندھی قانونی تشریح موجود نہیں لہذا ان تینوں اصطلاحات کو جس حکومت یا گروہ کا جی چاہے اندھے کی لاٹھی کی طرح گھما سکتا ہے۔
Published: undefined
فلمساز اور سینما مالکان چونکہ اپنا تحفظ نہیں کر سکتے لہذا جو بھی چاہے اپنی مردانگی اس میڈیم پر نکال سکتا ہے۔ بھلے فلم ریلیز ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ ان دنوں 'لیجنڈ آف مولا جٹ‘ پاکستان کے اندر اور باہر مقبولیت کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ جب کہ اصل مولا جٹ انیس سو اناسی میں ریلیز کے بعد مبینہ متازعہ مواد اور تشدد آمیز مناظر کے الزام میں تین بار سینما ہاؤسز سے اتاری گئی اور پھر ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ہی اس کی نمائش ممکن ہو سکی۔
Published: undefined
پاکستان میں جس پہلی فلم کی نمائش ریلیز سے پہلے روکی گئی وہ انیس سو انسٹھ میں بننے والی ہدائیت کار اے آر کاردار کی فلم 'جاگو ہوا سویرا‘ تھی۔ یہ مشرقی پاکستان کے ایک گاؤں کے ایک ہاری کی قرضہ دینے والے ساہوکار کی زیادتیوں کے خلاف جدوجہد کی کہانی تھی۔ مگر ایوب خان کی مارشل لا حکومت کو جانے اس کہانی میں ایسا کیا ناپسند آیا کہ پابندی لگا دی۔ البتہ بین الاقوامی سطح پر داد بٹورنے والی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی۔
Published: undefined
اس کا اسکرین پلے فیض احمد فیض نے لکھا تھا۔ مگر مشرقی اقدار اور نظریہ پاکستان کا جو ادراک جنرل ایوب کی حکومت کو تھا، اتنا تو محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نہیں تھا ۔ تبھی تو جنرل صاحب کو فاطمہ جناح کی ذات میں پوشیدہ بھارتی ایجنٹ بھی صاف صاف نظر آگیا تھا۔ ایسے ماحول میں بھلا فیض یا ان کی لکھی فلم کی کیا اوقات۔ پھر کہا جاتا ہے کہ فلم میں مقصدیت ڈالی جائے۔ جب مقصدیت ڈالی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اب اسے نکال دو۔ حیرت ہے کہ ایسے ماحول میں بھی فلمساز حوصلہ نہیں ہار رہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined