بھارت میں مذہبی لحاظ سے سب سے حساس ریاست اترپردیش میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے نجی یا غیر سرکاری امداد یافتہ مدارس کے سروے کا کام شروع کر دیا ہے۔ سروے ٹیموں کو5 اکتوبر تک سروے مکمل کرنے اور 25 اکتوبر تک رپورٹ پیش کردینے کی ہدایت دی گئی ہے۔
Published: undefined
اترپردیش میں مدارس کی اصل تعداد کے حوالے سے کوئی مصدقہ اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق ریاست میں چھوٹے بڑے تقریباً بیس ہزار مدارس موجود ہیں۔ ان میں سے صرف 560 سرکاری اعانت یافتہ ہیں۔ سرکاری اعانت حاصل کرنے کے لیے مدرسے کو ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے تسلیم شدہ ہونا ضروری ہے۔
Published: undefined
یہ بات قابل ذکر ہے کہ دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مظاہرالعلوم سہارنپور جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ اور تاریخی مدارس بھی ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے تسلیم شدہ نہیں ہیں۔ تاہم اس حوالے سے ان مدراس کے منتظمین کے اپنے دلائل ہیں۔
Published: undefined
مدارس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہیں سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ حکومت کے پاس اپنے وسائل ہیں اور وہ جب چاہے ان کا استعمال کرکے مدارس کے متعلق معلومات حاصل کرسکتی ہے۔ لیکن مدارس کے حوالے سے بی جے پی کا جو دیرینہ موقف اور جو رویہ رہا ہے اس کے مدنظر اس اقدام پر تشویش بے جا نہیں ہے اور سروے کے نام پر مدارس میں بے جا مداخلت کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بی جے پی کے رہنما مدارس کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیتے رہے ہیں۔
Published: undefined
مسلمانوں کی ایک بڑی اور ملک بھر میں مدارس پر اپنا خاصا اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کہتے ہیں،''ہمیں سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہمیں اس فرقہ پرست ذہنیت پر تشویش ہے جو اس اقدام کے پس پشت کار فرما ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں نے ملک بھر میں نفرت کا ماحول پیدا کر دیا ہے اور حکومت اس میں اپنا رول ادا کر رہی ہے۔ ان سب کے مدنظر مسلمان یہ سوچنے پر حق بجانب ہیں کہ حکومت کی ہر پالیسی ان کے تشخص کو مٹانے کے لیے نافذ کی جا رہی ہے۔‘‘
Published: undefined
مولانا مدنی کا کہنا تھا،''ملک میں بہت سارے نجی تعلیمی ادارے ہیں۔ اگر غیر تسلیم شدہ اسکولوں کا سروے اتنا ہی ضروری تھا تو دیگر کا سروے کیوں نہیں کرایا جا رہا ہے۔ آخر یہ تفریق کیوں کی جارہی ہے؟‘‘ سروے میں 12 نکات پر معلومات حاصل کی جارہی ہیں۔ جن میں آمدنی کا ذریعہ اور مدارس نیز اس کے ذمہ داروں کا کسی ادارے یا غیر سرکاری تنظیم (این جی او) سے تعلق کے بارے میں تفصیلات شامل ہیں۔
Published: undefined
سہارن پور، جہاں معروف مدرسہ دارالعلوم دیوبند واقع ہے، کے ایک مدرسہ کے استاد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا،''آخر وہ ہماری آمدنی کا ذریعہ کیوں معلوم کرنا چاہتے ہیں؟ مدارس کا خرچ زکوٰۃ اور لوگوں کی طرف سے دی جانے والی دیگر عطیات سے چلتا ہے۔ ہم حکومت سے ایک پیسہ نہیں لیتے پھر بھی وہ ہماری فنڈنگ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟‘‘
Published: undefined
بھارتی مسلمانوں کی کل ہند تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا کہنا ہے کہ مدارس کے سروے کے نام پر یوگی حکومت ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے کی ایک اور سازش کر رہی ہے۔
Published: undefined
بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان میں کہا،''بھارت میں مدارس کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ مدارس میں تعلیم کے علاوہ طلبہ کے اخلاق اور کردارسازی پر زور دیا جاتا ہے اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مدارس کے تعلیم یافتہ کبھی بھی دہشت گردی اور فرقہ وارانہ منافرت میں ملوث رہے ہوں۔ جدوجہد آزادی میں مدارس نے نمایاں کردار ادا کیا تھا اور آزادی کے بعد بھی وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد اور وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بھی مدارس کی تعریف کی ہے۔‘‘
Published: undefined
مولانا رحمانی کا مزید کہنا تھا،''صرف مدارس کا سروے کرانا مسلمانوں کی توہین ہے اور بھارت کی ملت اسلامیہ اسے یکسر طور پر مسترد کرتی ہے۔‘‘
Published: undefined
اتراکھنڈ میں بھی بی جے پی حکومت نے مدراس کے سروے کرانے کا اعلان کیا ہے۔ ریاست کے وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی کا کہنا تھا،''ریاست میں مدارس کا سروے ضروری ہے تاکہ 'تمام چیزیں‘سامنے آسکیں اور لوگوں کو ان کے بارے میں معلوم ہوسکے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مدارس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں ایسے میں سروے سے تمام حقائق سامنے آجائیں گے۔
Published: undefined
اتراکھنڈ پہلے اترپردیش کا حصہ تھا تاہم نومبر2000میں اسے بھارت کے 27ویں ریاست کے طور پرعلیحدہ صوبہ بنایا گیا۔ اتراکھنڈ میں103 مدارس سرکاری اعانت سے چل رہے ہیں۔ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے صدراور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے وزیر اعلیٰ دھامی کے اعلان کی مذمت کی۔ اس سے قبل انہوں نے یوگی ادیتیہ ناتھ کے فیصلے کی بھی مذمت کی تھی۔
Published: undefined
اویسی کا کہنا تھا کہ یہ ایک ''ٹارگیٹیڈ سروے‘‘ ہے۔"اس سروے کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اگر ایسا ہی ضروری ہے تو تمام پرائیوٹ اسکولوں، مشنری اسکولوں اور آرایس ایس کے اسکولوں کا بھی سروے کرایا جانا چاہیے۔ صرف نجی مدارس کا سروے کرانا یکسر غلط ہے۔‘‘
Published: undefined
مسلمانوں اور مدارس کے منتظمین کو خدشہ ہے کہ سروے کی آڑ میں بعض جھوٹے الزامات لگا کرمدرسوں کو منہدم کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ دنوں آسام کی بی جے پی حکومت نے کیا۔ آسام کی ہمنت بسوا سرما حکومت نے ریاست میں ''غیر قانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے چار مدارس کو منہدمکردیا تھا۔
Published: undefined
مولانا ارشد مدنی کا کہناتھا،''بسوا سرما نے مدارس میں القاعدہ کا دفتر ہونے کا الزام لگا کر انہیں منہدم کردیا لیکن وہ اس کا ایک بھی ثبوت نہیں دے سکے۔ اس طرح کی کسی بھی کارروائی سے قبل مسلمانوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
اترپردیش میں اقلیتی بہبود کے وزیر دانش انصاری کا تاہم کہنا ہے،''یوگی حکومت کے پچھلے پانچ برس میں تو کسی مدرسے پر بلڈوزر نہیں چلا اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ آئندہ بھی ایسا نہیں ہوگا۔ ریاستی حکومت مدارس کو مین اسٹریم میں لانے کے لیے پوری ایمانداری سے کام کررہی ہے۔ اور سروے کا مقصد مدارس کی حقیقی صورت حال کا پتہ لگانا ہے اور ان کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔‘‘
Published: undefined
معروف دانشور اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، جو مدرسہ جدیدکاری کمیٹی کے رکن بھی ہیں، نے کہا کہ ریاستی حکومت کسی بھی مدرسے میں صرف اسی وقت مداخلت کرسکتی ہے جب وہ اسے مالی مدد دیتی ہو۔ وہ مدارس سے آمدو خرچ کا حساب طلب کرسکتی ہے اور ایسا کرنے میں وہ پوری طرح حق بجانب ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ فی الحال بھارت میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ کسی بھی مدرسے کے لیے ریاستی مدرسہ بورڈ سے الحاق کرنا لازمی ہو۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مدارس میں روزانہ کم از کم پانچ گھنٹے تک بچوں کو پڑھانے والے بیشتر اساتذہ کو پانچ وقت نمازوں کی امامت بھی کرنا پڑتی ہے لیکن انہیں غیر ہنرمند مزدوروں سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے۔
Published: undefined
ظفرالاسلام خان کا کہنا تھا،''بڑے مدارس کو اپنے یہاں کے سند یافتہ طلبہ کے مسائل کو بھی سمجھنا چاہیے۔ چونکہ ان کی ڈگریاں غیر تسلیم شدہ ہوتی ہے اس لیے وہ صرف ٹیچر، امام یا موذن کی ملازمت تلاش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جہاں انہیں بہت معمولی تنخواہ پر گزر بسر کرنا پڑتی ہے۔‘‘
Published: undefined
مدارس کے منتظمین تاہم اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتے۔ دارالعلوم دیوبند کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا،''ہمارا ادارہ بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے اور ہمارے مدارس کے طلبہ کی بے روزگاری کی شرح صفر ہے۔ ملک کو مزید اماموں، اساتذہ اور قاضیوں کی ضرورت ہے۔ دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس ایسے ہی افراد تیار کر رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا،''ہمارے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عالم اور فاضل کی ڈگری والے سرکاری ملازمتوں میں نہیں جاسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم کے لیے آنے والے طلبہ ریاستی سول سروسز یا مرکزی سول سروسز میں جانے کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ وہ یہاں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے نہیں آتے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز