کولمبیا، پرتگال اور اسپین میں حالیہ انتخابات کے بعد ان ممالک کی سوشلسٹ سیاسی جماعتیں انتخابی فتح کے جشن منا رہی ہیں۔ سوشلسٹ قوتیں فرانس میں بھی عروج پر ہیں۔ جرمنی میں تاہم انتہائی بائیں بازو کی جماعتیں ایسی کامیابیوں کے بس خواب ہی دیکھ سکتی ہیں۔
Published: undefined
جرمن سوشلسٹ اپنے پڑوسی ملک فرانس کے ساتھیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ فرانس کا بائیں بازو کا اتحاد جسے معروف فرانسیسی سیاستدان ژاں لُک میلنشوں نے تشکیل دیا، جون کے پارلیمانی انتخابات میں دوسری سب سے بڑی اورمضبوط قوت بن کر ابھرا۔ جنوبی یورپ میں سوشلسٹ جماعتیں کئی سالوں سے حکومت میں ہیں۔ اسپین میں پیدرو سانچیز، پرتگال میں انٹونیو کوسٹا اور کولمبیا میں سابق گوریلا رہنما گستاف پیدرو حال ہی میں صدر منتخب ہوئے۔ ان لیڈروں کا سیاسی منظر نامے پر بڑھتا ہوا زور جرمنی کے سوشلسٹوں کے لیے قابل رشک ہے۔
Published: undefined
جرمنی کی سوشلسٹ نظریات کی حامل لیفٹ پارٹی بنڈس ٹاگ یعنی وفاقی ایوان زیریں میں سب سے چھوٹی جماعت ہے اور حالیہ برسوں میں اسے انتخابی ناکامیوں کا سامنا رہا ہے۔ اس وقت جرمنی کی 16 ریاستی پارلیمانوں میں سے اسے صرف نو میں نمائندگی حاصل ہے۔ مسلسل سیاسی لڑائی سے اس جماعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اپریل میں اس پارٹی کو جنس پرستی کے الزامات نے ہلا کر رکھ دیا۔ یہ اس وقت ہوا جب نیوز میگزین ڈئر اشپیگل کی طرف سے ریاست ہیسے کے بارے میں یہ خبر شائع ہوئی کہ وہاں بائیں بازو کی پارٹی کی مقامی شاخ میں کئی سالوں تک 'جنسی بد اعمالی‘ ہوتی رہی۔ پارٹی کی شریک چیئرپرسن جینین وِسلر کی سابقہ پارٹنر پر اس 'غلط رویے‘ میں ملوث افراد میں سے ایک ہونے کا الزام تھا۔
Published: undefined
جرمنی کی بائیں بازو کی جماعت کو اس پر لگے اس الزام نے بھی بہت نقصان پہنچایا کہ وہ جرمنی کی خارجہ اور سلامتی امور سے متعلق پالیسی پر ہمیشہ متضاد موقف رکھتی ہے۔ خاص طور سے روس اور یوکرین کی جنگ کے حوالے سے۔ گزشتہ ماہ ہونے والی ایک پارٹی کانفرنس میں بائیں بازو کی پارٹی کے مندوبین کی اکثریت نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو 'وحشیانہ، جارح اور فاتح‘ قرار دینے والی ایک تحریک کی حمایت کی اور روسی امراء کی خلاف جرمن حکومت کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی حمایت بھی کی۔
Published: undefined
دوبارہ منتخب ہونے والی جرمن لیفٹ پارٹی کی شریک سربراہ وِسلر کے بقول، ''جارحیت کی مجرمانہ جنگ کو کسی بھی دلیل سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
Published: undefined
بائیں بازو کی اس جرمن سیاستدان نے تاہم نیٹو مخالف موقف کو بھی دہرایا۔ انہوں نے دلیل دی کہ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کی ریاست سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد مشرقی یورپ کی طرف نیٹو کے پھیلاؤ پر ان کی پارٹی کی تنقید کا بھرپور جواز بنتا تھا۔ وِسلر کا کہنا تھا، ''تب نیٹو کو تحلیل نہ کرنا ایک غلطی تھی۔‘‘ چند مندوبین تو ان سے ایک قدم اور آگے چلے گئے۔ انہوں نے نیٹو کے اس اقدام کو 'مغربی سامراجیت‘ قرار دیا۔
Published: undefined
لیفٹ پارٹی کی کانفرنس سے قبل پارٹی کی خارجہ پالیسی کے ترجمان اور پارٹی کے سابق رہنما گریگور گیسی نے اپنی پارٹی کے بائیں بازو کے دھڑے پر 'اپنے پرانے نظریے پر قائم رہنے والی سوچ برقرار رکھنے‘ کا الزام عائد کیا۔ یعنی یہ سوچ: ''نیٹو ایک بدی ہے، امریکہ برا ہے، جرمن حکومت بری ہے۔‘‘ گیسی کا کہنا تھا، ''نیٹو نے کوئی ایسی غلطی نہیں کی تھی کہ جس کی وجہ سے روس کی جنگ کو جائز قرار دیا جائے۔‘‘
Published: undefined
ان تمام امور کے بارے میں پائی جانے والی تقسیم کے باوجود لیفٹ پارٹی کانفرنس کے تمام مندوبین اس وقت متحد ہو کر کھڑے ہوگئے، جب وفاقی جرمن فوج کی تجدید اور نت نئے آلات اور اسلحہ جات کی خریداری کے لیے 100 بلین یورو کے فنڈ کی منصوبہ بندی سامنے آئی۔
Published: undefined
روایتی طور پر جرمنی کی بائیں بازو کی جماعت کے ماسکو کے ساتھ تعلقات بہت دوستانہ رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ سابقہ مشرقی جرمن ریاست 'جی ڈی آر‘ کا ماسکو کے ساتھ پیوست ہونا بھی تھی۔ اس سابقہ مشرقی جرمن ریاست کا خاتمہ 1990ء میں ہوا تھا، جب جرمنی کا دوبارہ اتحاد عمل میں آیا تھا۔
Published: undefined
بعد ازاں سوشلسٹ یونٹی پارٹی آف جرمنی (SED)، جس نے کئی دہائیوں تک مشرقی جرمنی پر حکومت کی، نے اصلاحات کیں اور اپنے نام کی تبدیلی کے بعد اسے ابتدا میں پارٹی آف ڈیموکریٹک سوشلزم (PDS) کا نام دے دیا۔ 1998ء سے 2005ء تک سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹس (SPD) اور گرینز کی مخلوط حکومت نے لیبر مارکیٹ کی یکسر تنظیم نو کی، کاروبار کے لیے دوستانہ لیبر مارکیٹ اصلاحات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا تو ان اقدامات کے نتیجے میں عوام کے لیے فلاحی یا بے روزگاری الاؤنس وغیرہ کا دعویٰ کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔
Published: undefined
ایس پی ڈی اور ٹریڈ یونینوں کے مایوس ارکان پھر سابقہ مشرقی جرمنی کے 'پوسٹ کمیونسٹوں‘ کے ساتھ مل گئے اور اس پارٹی نے خود کو پھر ایک نیا نام دیا: 'دی لیفٹ پارٹی‘۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined