اڑتیس سالہ عطا محمد اسلام آباد کے مضافات میں کریانے کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ اپنے بہت سے دوستوں اور رشتہ داروں کی طرح وہ بھی اپنے بچوں کو اسکول کے بعد مقامی مدرسے میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں۔
Published: undefined
پاکستان میں مدارس بچوں کے لیے ابتدائی اور اس کے بعد مزید مذہبی تعلیم کے لیے اسکولوں کا کام دیتے ہیں۔ ایسے زیادہ تر مدارس مساجد سے منسلک ہوتے ہیں اور مساجد کی انتظامیہ ہی انہیں چلاتی ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں تمام مدارس کو کام کرنے کے لیے سرکاری لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن عملی طور پر بہت سے مدارس اس کے بغیر ہی کام کرتے ہیں۔
Published: undefined
عطا محمد کے بچے بھی جس مدرسے میں جاتے ہیں، اس کے پاس حکومتی اجازت نامہ نہیں ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں، ''مجھے ابھی آپ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مدرسہ غیر قانونی ہے لیکن اگر انتظامیہ کے پاس حکومتی اجازت نامہ نہ بھی ہو، تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
Published: undefined
ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا، ''اہم بات یہ ہے کہ یہ مدرسہ بغیر کوئی فیس لیے ہمارے بچوں کو قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا طریقہ سکھا کر ہمارے مذہب کی بہت بڑی خدمت کر رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
بہت سے پاکستانیوں کے خیالات اسی طرح کے ہیں، جس کی وجہ سے حکام کے لیے غیر قانونی طور پر چلائے جانے والے مدارس کو بند کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد پولیس کی مرتب کردہ ایک فہرست کے مطابق صرف دارالحکومت میں 562 مدارس ہیں، جن میں سے تقریباً 250 مدارس رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ قانون کے مطابق کسی بھی مدرسے کی بنیاد رکھنے اور اسے چلانے کے قبل حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے۔
Published: undefined
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مدارس چلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں کیوں کہ انہیں مذہبی طور پر قدامت پسند معاشرے میں سخت گیر مسلمانوں کی طرف سے پرتشدد ردعمل کا خوف رہتا ہے۔
Published: undefined
معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ عموماً مسلمان اپنے مذہب کے بارے میں بہت حساس ہیں اور وہ اسلامی قوانین یا اداروں میں کسی بھی قسم کی اصلاحات کو معاشرے کے مذہبی کردار پر حملہ سمجھتے ہیں۔
Published: undefined
انہوں نے صوبہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر اور ایک سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے قتل کے واقعات کا حوالہ بھی دیا، جنہوں نے زیادہ تر واقعات میں غلط استعمال ہونے والے توہین رسالت کے قانون میں ترامیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو بھی اسلام آباد کی لال مسجد کے خلاف 2007ء کے کریک ڈاؤن کے بعد جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں اور اس مدرسے کے خلاف کارروائی کے بعد فوج کے خلاف حملوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا تھا۔
Published: undefined
مدارس میں پڑھنے والے زیادہ تر طلبا کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔ ایسے غریب گھرانوں کے لیے یہ مدارس اہم ادارے ہوتے ہیں اور اکثر ان کے بچوں کے لیے یہ تعلیم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ بھی ہیں۔ ایسے مدارس بچوں کو کھانا، کپڑے اور رہائش بھی فراہم کرتے ہیں جبکہ ایسے کچھ مذہبی ادارے عمومی تعلیم بھی دیتے ہیں۔
Published: undefined
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) سے وابستہ تجزیہ کار شفقت منیر احمد کے مطابق دارالحکومت کے مدارس میں زیادہ تر طلبا کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے دور دراز اور غربت زدہ علاقوں سے ہے۔
Published: undefined
شفقت منیر احمد کا مزید کہنا تھا کہ ایسے غریب بچوں کے والدین انہیں مناسب کھانا کھلانے سے بھی قاصر ہوتے ہیں جبکہ مدارس انہیں مفت کھانا، کپڑے، رہائش اور 'محفوظ مستقبل‘ کی پیشکش کرتے ہیں۔ منیر احمد کے مطابق کچھ نچلے متوسط طبقے کے گھرانے بھی اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات کے لیے مدرسوں میں بھیجتے ہیں۔
Published: undefined
یہ صرف دینی مدارس ہی نہیں ہیں، جو قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں بلکہ پاکستانی دارالحکومت میں بہت سی مساجد بھی غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ ہیں۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے سن 2017ء میں ایک سروے کرایا تھا، جس کے مطابق اس شہر کی 492 مساجد میں سے تقریباً نصف (233) سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں۔ اس سروے کے مطابق بہت سی قانونی طور پر چلنے والی مساجد نے بھی نمازوں کے لیے ہال، کمرے، بیت الخلا، کچن اور دکانیں وغیرہ بناتے ہوئے سرکاری زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
Published: undefined
شہری انتظامیہ کے ایک اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے حالیہ چند برسوں میں ایسا کوئی نیا سروے نہیں کیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ مذہبی رہنماؤں کی طرف سے شدید مخالفت کی وجہ سے سرکاری اہلکار ایسی ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔
Published: undefined
ایک پولیس اہلکار فرید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زمینوں سے غیر قانونی قابضین کو نکالے لیکن وہ اس حوالے سے پولیس سے مدد مانگ سکتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کے مطابق کچھ علما مقبوضہ زمینوں پر مساجد کی تعمیر کو جائز قرار دینے کے لیے قانون اور اسلامی تعلیمات کی 'غلط تشریح‘ بھی پیش کرتے ہیں۔
Published: undefined
قبلہ ایاز کے مطابق اسلام زمینوں پر عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت صرف ان کے مالکان کی طرف سے پیشگی اجازت کے بعد ہی دیتا ہے، چاہے یہ زمین سرکاری ہو یا پھر کسی کی نجی ملکیت میں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز