بھارت اور بالخصوص شمالی بھارت میں عام انتخابات سے لے کر اسمبلی حتیٰ کہ بلدیاتی انتخابات بھی محمد علی جناح کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوپاتے ہیں۔ بیشتر سیاسی رہنما ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے جناح اور پاکستان کا نام لینا ضروری اور کامیابی کی کلید سمجھتے ہیں۔
Published: undefined
بھارت میں سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش میں اگلے برس اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس الیکشن کے نتائج سن 2024میں ہونے والے عام انتخابات پر لازماً پڑیں گے۔ ایسے میں ہر آئے دن کوئی نہ کوئی رہنما جناح کا راگ ضرور الاپتا ہے۔
Published: undefined
تازہ ترین واقعہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی سابق حلیف جماعت سہیل دیو بھارتی سماج پارٹی کے قومی صدر اوم پرکاش راجبھر کا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر محمد علی جناح کو بھارت کا وزیر اعظم بنادیا جاتا تو اس ملک کے دو ٹکڑے نہیں ہوتے اور سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے لے کر لال کرشن اڈوانی تک جناح کی تعریف کرچکے ہیں۔
Published: undefined
راجبھر کے بیان پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ بی جے پی نے ان کے بیان کی مذمت کی ہے اور جناح کا نام لینے پر حسب روایت معافی مانگنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ یہ حربہ ووٹروں کو حقیقی مسائل سے بھٹکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
بھارتی صحافی اور روزنامہ جدید خبر کے ایڈیٹر معصوم مرادآبادی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' اس ملک کے اندر ایک ایسا طبقہ ہے جس کی سوچ بہت فرسودہ اورفرقہ وارانہ ہے۔ محمد علی جناح تاریخ کا حصہ ہیں اور جدوجہد آزادی میں جناح کے کردار کی وجہ سے ہی جب اڈوانی جی کراچی جاتے ہیں تو ان کے مزار پر گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں اور جسونت سنگھ جیسا بی جے پی کا لیڈر جناح پر پوری کتاب لکھ ڈالتا ہے۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ '' دراصل بی جے پی میں بڑا تضاد ہے۔ اگر محمد علی جناح اتنے ہی برے ہیں تو اڈوانی جی اور جسونت سنگھ حتٰی کہ اٹل بہاری واجپئی جیسے رہنماؤں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔ دراصل جب آپ انڈیا کی جدوجہد آزادی کی بات کرتے ہیں تو جناح گاندھی کے ساتھ بھی کھڑے نظر آتے ہیں، نہرو، پٹیل اور مولانا آزاد کے ساتھ بھی کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ تاریخ کو مٹا تونہیں سکتے۔‘‘
Published: undefined
چند دنوں قبل ہی اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اور اپوزیشن سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے جدوجہد آزادی کے دوران جب گاندھی، نہرو، پٹیل اور جناح کو ایک ہی صف میں رکھنے سے متعلق بیان دیا تھا تو زبردست ہنگامہ کھڑا ہوگیا تھا۔ یادو نے اپنی تقریر میں کہا تھا،''گاندھی، نہرو، پٹیل اور جناح نے ایک ہی ادارے میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے (انڈیاکو) آزادی دلانے میں مدد کی اور اپنی جدوجہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔‘‘
Published: undefined
اترپردیش کے وزیر اعلٰی یوگی ادیتیہ ناتھ نے یادو کے اس بیان کو' طالبانی ذہنیت کی سوچ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، '' یہ انتہائی شرمناک ہے، یادو جی جناح کا موازنہ سردار پٹیل سے کررہے ہیں۔ جناح نے ملک کو تقسیم کرایا جبکہ سردار پٹیل نے قوم کو متحد کیا۔‘‘
Published: undefined
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھی یادو کے بیان کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن مسلمانوں نے تقسیم ملک کے بعد بھی بھارت میں رہنے کو ترجیح دی انہوں نے دراصل جناح کے دو قومی نظریے کی تردید کی ہے۔
Published: undefined
سیاسی تجزیہ کار معصوم مرادآبادی کے مطابق جناح یا پاکستان کے حوالے سے جس طرح کی سوچ بھارت میں پیدا کردی گئی ہے وہ ایک فسطائی سوچ ہے۔ یہ کوئی جمہوری سوچ نہیں ہے۔ اور اس سے جمہوریت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔'' ہم دعوٰی تو یہ کرتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں لیکن اس طرح کی باتیں جمہوریت کے بنیادی اساس کو نقصان پہنچاتی ہیں۔‘‘
Published: undefined
خیال رہے کہ بی جے پی کے سینئر رہنما اڈوانی نے دورہ پاکستان کے دوران محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی تھی اور انہیں 'سیکولررہنما‘ قراردیا تھا۔ پاکستان سے واپس لوٹنے پر خود بی جے پی اور آرایس ایس نے ان کے خلاف انتہائی سخت بیانات دیے تھے جس کے بعد انہیں پارٹی صدر کے عہدے سے استعفٰی دینا پڑا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined