کشمیر کی اہم سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور عقیدت مندوں نے انتظامیہ کے اس اقدام کو ‘‘مذہبی معاملات میں مداخلت'' بتایا جبکہ خطے کی سب سے پرانی جماعت نیشنل کانفرنس نے بھارتی حکومت کے ‘نارملسی' کے دعوے پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
Published: undefined
دارالحکومت سری نگر میں قائم انجمن اوقاف جامع مسجد نے اپنے ایک تازہ بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ حکام نے مرکزی مسجد میں جمعتہ الوداع اور شب قدر کے اجتماعات کی اجازت نہیں دی ہے۔
Published: undefined
انجمن اوقاف کے مطابق ‘‘سری نگر ضلع میجسٹریٹ کی سربراہی میں انتظامیہ اور پولیس کی ایک ٹیم نے ستائیس اپریل کو افطاری کے بعد جامعہ مسجد کا رخ کیا اور انجمن اوقاف کے ممبران پر یہ واضح کردیا کہ جامعہ مسجد کے اندر شب قدر اور رمضان کے آخری جمعہ کے اجتماعات اور نماز کی اجازت نہیں دی جائے گی۔''
Published: undefined
گزشتہ تین برسوں سے کشمیر کی مساجد' مدارس' مولوی اور ممبر خاموش پڑے ہیں۔ کیا کشمیر کی مسجدوں' ممبروں' مدرسوں اور مولویوں کو حکومتی پالیسی کے تحت خاموش کر دیا گیا ہے؟ ڈوئچے ویلے نے اس سکوت کی وجوہات جاننے کے لئے مختلف طبقہء فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے رائے جاننے کی کوشش کی۔
Published: undefined
سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ اور ان کے فرزند عمر عبداللہ کی سربراہی والی جماعت جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے انتظامیہ کی جانب سے جامع مسجد میں نماز اور عبادت کی اجازت نہ دینے کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انتظامیہ کے ‘نارملسی' دعوؤں پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
Published: undefined
جمعرات کو سری نگر میں واقع نیشنل کانفرنس کے صدر دفتر نوائے صبح میں پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے یہ سوال پوچھا: ‘‘اگر کشمیر میں سب کچھ نارمل ہے تو پھر عقیدت مندوں کو جامع مسجد کے اندر داخل ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟'' انہوں نے انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ مقدس ایام کے موقع پر عقیدت مندوں کے جذبات کی قدر کرے' جامعہ مسجد کے دروازے عقیدت مندوں کے لئے کھول دئے جائیں۔
Published: undefined
حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے کے مطابق میر واعظ کو تقریباً تین برسوں سے سری نگر کے نگین علاقے میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ہی نظر بند رکھا گیا ہے۔ موجودہ میرواعظ سے قبل ان کے مرحوم والد میر واعظ مولوی فاروق اور ان کے قریبی رشتہ دار جیسے میرواعظ یوسف شاہ جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے۔
Published: undefined
کشمیر کی سب سے بڑی مسجد اب لگ بھگ تین سال سے خاموش پڑی ہے۔ حالانکہ بیچ میں حکومت نے جمعہ کے بغیر چند اوقات میں یہاں نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی تاہم پہلے اگست دو ہزار انیس کے لاک ڈاؤن' پھر کووڈ انیس وباء اور ‘لا اینڈ آرڈر' کے چلتے زیادہ تر اس مسجد کو بند ہی رکھا گیا۔
Published: undefined
جامع مسجد کشمیر کے شہر خاص کے وسط میں نوہٹہ کے علاقے میں آج سے سات سو برس قبل تعمیر کی گئی۔ یہ مرکزی مسجد خطے کی تاریخ کی گواہ بن چکی ہے۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ سلطان سکندر کے دور میں ہی اس مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہر جمعہ کو یہاں رونق ہوا کرتی تھی۔ مرد اور خواتین یہاں میرواعظ کی زبانی جمعہ کا خطبہ سننے آتے تھے اور نماز کے بعد یہاں کے بازاروں میں شاپنگ بھی کیا کرتے تھے۔
Published: undefined
سن چودہ سو میں سلطان سکندر کے دور میں تعمیر کی گئی سری نگرڈاؤن ٹاؤن کی جامعہ مسجد کشمیر کا اہم ثقافتی ورثہ ہونے کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی بھی ایک علامت تصور کی جاتی ہے۔ اب یہاں کا ممبر خاموش پڑا ہے۔
Published: undefined
جامعہ مسجد کے احاطے کے باہر ایک مارکیٹ بھی سجی ہے لیکن یہاں کے دکان دار پریشان حال ہیں۔ باسٹھ برس کے عبد الرحمٰن چار دہائیوں سے یہاں کی مارکیٹ میں تجارت کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کے بقول اب جامع مسجد کا بازار پہلے جیسا نہیں رہا۔ ‘‘اب یہ بازار زیادہ تر ویران ہی پڑا ہوتا ہے۔''
Published: undefined
جامعہ مارکیٹ کے دکان دار انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسجد میں جمعہ کی نماز کی اجازت دی جائے تاکہ اس بازار کے دکان داروں کے روزگار پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔
Published: undefined
گزشتہ تین برسوں سے مسلسل لاک ڈاؤنز کے باعث یہاں ہر بڑے اجتماعات پر اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر پابندی جاری رہی ہے جس کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک معمر خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جامعہ مسجد میں عبادت پر حکومتی پابندی سے ‘‘عقیدت مندوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔'' یہ خاتون جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ہی ادا کیا کرتی تھیں۔
Published: undefined
‘‘ہم یہاں پانچ وقت کی نماز ادا کیا کرتے تھے۔ یہاں ہمارے دین اور آخرت کی بات ہوتی تھی۔ اسی سے ہماری دنیا اور آخرت سنور جاتی تھی۔ جب سے مسجد بند پڑی ہے ہمارے عقیدے اور جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ہم روحانی طور بھی بیمار ہوگئے ہیں۔''
Published: undefined
کشمیر کی بیشتر مساجد' خانقاہوں' زیارتوں اور مدارس میں پچھلے تین برسوں سے کشمیر مسئلے پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے جبکہ بیشتر مساجد میں یہ پیغام آویزاں ہے: ‘‘مسجد کے اندر سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔''
Published: undefined
بھارتی وزارت داخلہ نے پارلیمان ہند کو بتایا تھا کہ کشمیر میں دفعہ تین سو ستر ہٹانے سے قبل چھ ہزار سے زائد افراد کو احتیاطی حراست میں لینا پڑا تھا جن میں ریاست کے تین سابق وزراء اعلیٰ اور مختلف نظریات سے وابستہ اہم ترین سیاست دان' انسانی حقوق کے کارکن' سول سوسائیٹی ارکان' تاجر' صحافی اور عام لوگ شامل تھے۔
Published: undefined
نئی دہلی سے شائع ہونے والے ڈیجیٹل پورٹل دی پرنٹ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق کشمیر کے قید خانے کشمیری قیدیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اس رپورٹ نے سیکیورٹی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران گرفتاریوں کے چلتے مقامی جیل خانوں پر دباؤ پڑا ہے جس کے باعث متعدد وارنٹوں پر عمل در آمد نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جموں و کشمیر پولیس نے بھارتی ریاستوں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے جیل حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ کشمیری قیدیوں کو باہر کی جیلوں میں منتقل کیا جا سکے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز