حال ہی میں فرانسیسی سیاست میں ایک سیکس اسکینڈل کی وجہ سے بھونچال کی کیفیت رہی ہے۔ دارالحکومت پیرس کے میئر کے الیکشن میں صدر ماکروں کے حمایت یافتہ امیدوار بینجمن گریوو کو جنسی الزام کی وجہ سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی۔ اس ویڈیو میں وہ خودلذتی کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔ گریوو نے ابھی تک ویڈیو کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔
Published: undefined
ڈیجیٹل دور میں ایسی عریاں تصاویر یا ویڈیوز خواتین کو روانہ کرنا ایک عام رویہ بن چکا ہے۔ ایسی تصاویر کے لیے 'ڈِک پکس‘ یا 'سائبر فلیشنگ‘ کی اصطلاحات رواج پا چکی ہے۔ سن 2017 میں کیے گئے برطانوی سروے کے مطابق اٹھارہ سے پینتیس برس کی ترپن فیصد خواتین کو ایسی غیر مناسب تصاویر موصول ہوئیں جب کہ پینتیس سے چون سال کی عمر کی عورتوں کو ایسی تصاویر بھیجنے کا تناسب چونتیس فیصد تھا۔
Published: undefined
ایسی تصاویر موصول کرنے والی چار میں سے تین خواتین کا موقف ہے کہ انہیں یہ عریاں تصاویر ان کی رضامندی کے بغیر بھیجی گئیں۔ سن 2019 میں کینیڈا میں ایک ریسرچ مکمل کر کے اُس کے نتائج عام کیے گئے ہیں۔ یہ پہلی تحقیق تھی جس میں عریاں تصاویر بھیجنے والے اشخاص کی نیت، ارادے اور خواہشات کا مطالعہ کیا گیا۔ اعداد و شمار سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ سائبر فلیشنگ کرنے والے لین دین کی ذہنیت (Transactional Mindset) کے حامل ہوتے ہیں۔
Published: undefined
ایسی ذہنیت کے افراد یہ توقع کرتے ہیں کہ عریاں تصویر بھیجنے کے بعد وہ بھی ایسی ہی کوئی تصویر وصول کریں گے یا خاتون کے ساتھ ربط بڑھنے کا امکان ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں تقریباً گیارہ سو افراد کے انٹرویوز کیے گئے اور ان کی شناخت مخفی رکھی گئی کیونکہ وہ یہ حرکات نامعلوم رہتے ہوئے کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جواباً تصویر کی توقع کرتے تھے۔
Published: undefined
یہ بھی معلوم ہوا کہ نامعلوم رہتے ہوئے عریاں تصویر بھیجنے والے دوست یا پارٹنز کی تلاش میں بھی ہوتے ہیں۔ چھ جواب دینے والوں کے رویے سے معلوم ہوا کہ اُن کا تصویر روانہ کرنا اصل میں اُن کے ذہنی خلل یعنی خود پسندی یا نرگسیت کے ساتھ ساتھ سیکس کی طرف مائل ہونا ہے۔ خواتین سے بیزاری رکھنے والے انتہائی کم تعداد میں اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق تمام انٹرویوز سے معلوم ہوا کہ ایسا کرنے والے عدم رہنمائی کے شکار ہوتے ہیں اور ان میں نسائی نفرت کے جذبات موجود نہیں ہوتے۔
Published: undefined
سن 2019 میں ایک خاتون ریسرچر مویا سارنر نے بھی برطانوہی اخبار گارڈین کے لیے کم و بیش ایسی ہی ریسرچ مکمل کی تھی اور ان کے نتائج بھی کینیڈن ریسرچ سے ملتے جلتے تھے۔ نام مخفی رکھنے کی شرط پر مختلف مردوں نے ریسرچر مویا سارنر کو عریاں تصاویر بھیجنے کی کوئی ٹھوس وجہ تو نہیں بتائی لیکن زیادہ تر کو امید تھی کہ ایسا کرنے سے وہ کسی خاتون کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز