پیگاسس جاسوسی معاملے کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں تفتيش کرانے کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ اپیل کی جمعرات کے روز سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس این وی رمنّا کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر جاسوسی کے الزامات درست ہیں، تو یہ ايک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔
Published: undefined
پیگاسس جاسوسی معاملے میں مودی حکومت کے خلاف کئی صحافیوں، صحافیوں کی تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، ایک رکن پارلیمان اور ایک ایڈوکیٹ کی طرف سے کیس دائرکیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت نے ملک میں سیاست دانوں، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، ججوں اور دیگر کے خلاف جاسوسی کے لیے اسرائیلی این ایس او گروپ کے تیار کردہ جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس کا استعمال کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اسرائیل یہ سافٹ ویئر صرف حکومتوں یا حکومتی اداروں کو ہی فروخت کرتا ہے، لہذا جاسوسی میں حکومت براہ راست ملوث ہے۔
Published: undefined
درخواست گزاروں میں شامل معروف صحافی اور 'دی ہندو‘ اخبار شائع کرنے والے ادارے 'کستوری اینڈ سنز لمیٹڈ‘ کے چیئرمین این رام کی طرف سے وکیل سابق وزیر کپل سبل نے دلیل دی کہ جاسوسی کا یہ معاملہ 'پرائیوسی، وقار اور جمہوری اقدار پر حملہ ہے۔‘ انہوں نے کہا، ”حکومت کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ آیا اس نے پیگاسس سافٹ ویئر خریدا تھا یا نہیں؟ اس کا ہارڈ ویئر کہاں رکھا؟ حکومت نے ایف آئی آر درج کیوں نہیں کرائی؟ ہم عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرے۔"
Published: undefined
اپوزیشن جماعتوں کے پیگاسس جاسوسی معاملے پر بحث کرانے کے مطالبے پر کل جمعرات کے روز بھی پارلیمان میں ہنگامہ جاری رہا۔ اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے پارلیمان کا اجلاس روزانہ ملتوی ہو رہا ہے۔
Published: undefined
تاہم اتنے اہم انکشاف اور پیگاسس جاسوسی معاملے پر دنیا کے متعدد ملکوں میں عوامی ناراضگی کے باوجود بھارت میں کم از کم عوامی سطح پر کوئی خاص غصہ یا ناراضگی نظر نہیں آ رہی۔ صحافی اور سول سوسائٹی کے افراد اس پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔کیونکہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حکومت کی طرف سے اپنے شہریوں کی جاسوسی کرنے کا پتہ چلنے پر عوام کا شدید رد عمل ہو گا۔
Published: undefined
ماہرین بھارت میں پرائیويسی کے تئیں لوگوں کی عدم توجہ کی ایک وجہ قرار دیتے ہیں۔ سماج وادی جن پریشد نامی سماجی تنظیم کے جنرل سکریٹری افلاطون کا کہنا تھا کہ بھارت میں بیشتر لوگ انفرادی حقوق کو اہمیت نہیں دیتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”موجودہ حکومت نے عوامی شناختی کارڈ 'آدھار‘ سے متعلق ایک کیس میں یہ دلیل دی تھی کہ جب بھارت کی اکثریتی عوام غریب ہے اور اس کے پاس بنیادی حقوق تک ميسر نہیں، ایسے میں پرائیویسی کے حق کی بات بہت بعد میں آتی ہے۔"
Published: undefined
سپریم کورٹ نے گو کہ حکومت کی یہ دلیل مسترد کر دی تھی اور پرائیویسی کو آئینی حق قرار دیا تھا لیکن اس کے باوجود ایسے عدالتی فیصلے حکومت کی جانب سے پرائیویسی کی خلاف ورزی کو روک پانے میں ناکام ہیں۔ افلاطون اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”حکومت نے 'آدھار‘ کو لازمی قرار نہیں دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں تقریباً کوئی بھی سرکاری کام، حتی کہ بچوں کے اسکول میں داخلے سے لے کر مریض کے ہسپتال میں داخلے تک، آدھار کے بغیر ممکن نہیں۔ اور 'آدھار‘ میں فرد کی تمام تر تفصیلات درج ہوتی ہیں۔"
Published: undefined
سماجی اور سیاسی تجزیہ کار چندن سریواستو کا کہنا تھا، ”حکومت کئی معاملات میں دلیل دے چکی ہے کہ جب تک شہریوں کو بنیادی حقوق نہیں مل جاتے، پرائیویسی کی کوئی اہميت نہیں ہے۔ لیکن اسی دلیل کو الٹا کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے یعنی جب تک شہریوں کو پرائیویسی کا حق نہیں مل جاتا اس وقت وہ مکمل شہری نہیں بن سکیں گے۔"
Published: undefined
ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ یوں تو بھارتی شہريوں کو اپنی جاسوسی بالکل پسند نہیں لیکن اہم شخصیات کی جاسوسی پر انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں۔ چندن سریواستو کہتے ہیں،”جب تک حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرتی، جس کا براہ راست عوام پر منفی اثر ہو، اس وقت تک لوگوں میں غصہ پیدا نہیں ہوتا۔"
Published: undefined
تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھارت میں بدعنوانی ایک بڑا سیاسی موضوع تھا۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کا اقتدار ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ بدعنوانی بھی تھی لیکن اب بھارت میں حکومت کو بدعنوان نہیں سمجھا جا رہا۔ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ حکومت بدعنوان نہیں ہے۔
Published: undefined
ماہرین کہتے ہیں کہ بھارتی شہری کسی بدعنوان سیاسی لیڈر کو بھی آسانی سے معاف کر دیتے ہیں اور جن سیاسی رہنماؤں کو پسند کرتے ہیں، ان کے غلط کاموں کو درست ٹھہرانے کا کوئی نہ کوئی جواز بھی تلاش کر ہی لیتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز