پچھلے دنوں ہمارے حلقۂ احباب میں ایک صاحب کو اپنی گاڑی کے کاغذات مکمل کرانے کی غرض سے جانا تھا۔ آفس سے ایک دن کی چھٹی لی اور گھر کے نارمل سے حلیے میں مطلوبہ آفس پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر اپنا مدعا بیان کیا تو کاؤنٹر پر موجود شخص نے جان چھڑانے والے انداز میں معلومات دیں، بےشمار غیرمتعلق کاغذات طلب کیے اور دوبارہ آنے کا کہہ کر ٹال دیا۔
Published: undefined
اگلے دن وہ صاحب آفس جانے کے لیے ڈریس اپ ہوئے اور سوچا کہ کل جو کام مکمل نا ہو سکا اس کے لیے بھی چکر لگا لیں۔ وہاں پہنچے تو حیرت ہوئی کہ کل کے مقابلے میں آج بہتر طریقے سے بات کی گئی اور ضروری کارروائی کے بعد فوراً ان کے مطلوبہ کاغذات تیار کرکے نا صرف ان کے حوالے کر دیے گئے بلکہ انہیں چائے کی پیشکش بھی کی گئی۔ اور وہ بےچارے حیران پریشان سوچ رہے تھے کہ یہ کیا کایاپلٹ ہوگئی۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ان کے لباس اور حلیے سے یہ تاثر پڑا کہ کوئی بارسوخ شخص ہے کہیں ہماری کھنچائی ہی نا کروا دے۔ جب کہ ایک دن پہلے وہ بچارے سے حلیے میں گئے تھے تو انہیں کسی نے لفٹ ہی نہیں کروائی۔
Published: undefined
سی طرح کے دیگر کئی واقعات سے ہمارا واسطہ اکثروبیشتر پڑتا رہتا ہے۔ ہم نے کسی انسان کے قد کو ناپنے کا پیمانہ کپڑوں، موبائل فون گاڑی اور گھر جیسی ناپائیدار چیزوں کو بنا لیا ہے۔ جب تک آپ نے کسی مہنگے سے برانڈ کے کپڑے نا پہن رکھے ہوں اور اپیل کا مہنگا ترین فون آپ کی جیب سے نا جھانک رہا ہو اگلا آپ کی عزت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ آپ ہاسپٹل جائیں، ایئرپورٹ جائیں یا کسی آفس جائیں، لوگوں کا برتاؤ آپ کے ساتھ آپ کے لباس کے مطابق ہوتا ہے۔ اچھا لباس زیب تن کرنے کا شوق ہرگز برا نہیں اور اچھے لباس کو سراہنا بھی چاہیے لیکن لباس کی بنیاد پر کسی کی تذلیل کرنا یا اسے عزت نا دینا انتہائی غیر شائستہ رویہ ہے۔
Published: undefined
خواتین کو تو اپنے لباس کے حوالے سے سے کئی گنا زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خاص طور پر خواتین کا لباس ان کے کردار کا سرٹیفکیٹ بھی ہے اور سماجی رتبہ کا اسکیل بھی۔ ہم لوگوں کو ان کے لباس کے مطابق مختلف کیٹگریز میں ڈال دیتے ہیں۔ کسی خاتون نے اگر مغربی اسٹائل کا لباس پہن رکھا ہے تو بہت سی نظریں ان کا تعاقب اس سوچ کے ساتھ کریں گی کہ وہ یقیناً برے کردار کی حامل بھی ہیں۔ لباس کسی کی شخصیت کا مظہر تو ہوسکتا ہے لیکن کردار کا فیصلہ لباس سے کرنا سراسر زیادتی ہے۔ اسی طرح ایسی جگہ جہاں مرد و زن ایک ساتھ کام کرتے ہوں، عموماﹰ خوش لباس خواتین یا ماڈرن ڈریسنگ کرنے والی خواتین کو ایک "چانس" سمجھ کر کوشش ضرور کی جاتی ہے۔ اسی طرح مغربی لباس مثلاً جینز وغیرہ چاہے باوقار انداز میں ہی کیوں نا پہنی گئی ہو۔ ایسی لڑکیوں کو بھی آزاد خیال گردان کر ان کے کردار کے متعلق بدگمانی رکھ لی جاتی ہے۔
Published: undefined
انسانی تہذیب کے ارتقاء نے لباس کو صرف موسم کے سرد و گرم سے محفوظ رکھنے سے کہیں آگے تک کا درجہ دے دیا ہے۔ موجودہ دور میں لباس ایک مکمل انڈسٹری کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کا روزگار اس انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ فیشن انڈسٹری ایک الگ شعبے کی حیثیت سے اپنا آپ منوا چکی ہے۔ یوں موجودہ دور میں مناسب لباس، نامناسب لباس اور موقع محل کے مطابق لباس کی اصطلاحات وجود میں آچکی ہیں، اور ان سب کی اہمیت مسلمہ ہے۔ لیکن ہمارے رویے ان سب پہلوؤں سے ہٹ کر ہیں۔ آپ کسی نوکری کے لیے انٹرویو دینے جائیں تو انٹرویو بورڈ کے سامنے پیش ہوتے وقت کمرے میں داخل ہونے سے کرسی پر بیٹھنے تک بورڈ ممبران آپ کی شخصیت کو آدھا جانچ چکے ہوتے ہیں۔ گو کہ اس جانچ میں لباس کے علاوہ آپ کی باڈی لینگویج کو بھی دیکھا جا رہا ہوتا ہے لیکن پہلا تاثر لباس کا ہی پڑتا ہے۔
Published: undefined
پھر جب انٹرویو کے اگلے مراحل میں شخصیت کے باقی پرت کھلتے ہیں تو لباس کا تاثر زائل ہوجاتا ہے۔ لیکن عام طور پر لوگوں کے رویوں کو لباس سے مشروط دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عزت انسان کی، اس کے اخلاق کی ہونی چاہیے یا لباس کی؟ بچپن میں دادی ایک حکایت سنایا کرتی تھیں کہ ایک شخص کسی امیر آدمی کی دعوت میں پہنچتا ہے تو اسے اندر داخل نہیں ہونے دیا جارہا ہوتا کہ لباس دعوت کی شان کے مطابق نہیں۔ وہ شخص اچھا لباس زیب تن کرکے دعوت میں شامل ہوتا ہے اور کھانا خود کھانے کے بجائے اپنے لباس پر ڈالتا ہے اور کہتا جاتا ہے کہ کھا، کھا یہ کھانا اصل میں تیرے لیے ہے۔ آج کل کسی کو برانڈڈ لباس، فون اور گاڑی کی وجہ ملنے والی عزت دیکھ کر بےاختیار دادی جان کی سنائی گئی یہ حکایت یاد آجاتی ہے۔ لباس کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یاد رکھیں کہ لباس کسی کے اچھے یا برے کردار کی سند نہیں بن سکتا۔ اور نا ہی اسکے اچھے انسان ہونے کی دلیل ہے۔ اصل چیز انسان کا رویہ، برتاؤ اور اخلاق ہے۔ عزت کی بنیاد انسانی رویے پر ہونی چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک شخص بات کرنے میں کتنا نرم لہجہ رکھتا ہے، اپنی غلطی تسلیم کرنے کی جرات رکھتا ہے یا نہیں، دوسروں کا شکریہ ادا کرنے میں کتنا وقت لگاتا ہے۔ یہی ایک انسان کا اصلی کردار ظاہر کرتا ہے۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز