انفارمیشن شیٹ میں ہینڈرک وٹبوئی کو ان کے ملک نمیبیا کے 200 ڈالر کے نوٹ پر دکھایا گیا ہے۔ ہائی اسکول کے طلبہ پڑھتے بھی ہیں کہ وٹبوئی نے 19 ویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں نمیبیا پر جرمن قبضے کے خلاف جنگ لڑی تھی۔
Published: undefined
جرمنی نے اپنی نو آبادیاتی افواج کے ذریعہ ہیریرو اور ناما کے عوام کی 'نسل کشی‘ کی تھی۔ اس وقت یورپی ممالک اس خطے کو جرمن ساؤتھ ویسٹ افریقہ کہا کرتے تھے اور اب اسے نمیبیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
Published: undefined
نمیبیا میں تو آج بھی وٹبوئی کو جرمن نوآبادیات سے آزادی حاصل کرنے کی جنگ کرنے والے ایک ہیرو کے طور پر عزت حاصل ہے۔ لیکن جرمنی میں طلبہ کو شاید ہی وٹبوئی کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔
Published: undefined
وٹبوئی کے بارے میں انفارمیشن شیٹ افریقہ سے متعلق ایک جرمن ایسوسی ایشن نے اس امید کے ساتھ تیار کی تھی کہ جن اساتذہ کو اس میں دلچسپی ہو گی وہ اسے اپنی کلاس میں بھی استعمال کریں گے، تاہم یہ جرمن اسکولوں میں سرکاری تدریسی مواد کا باضابطہ حصہ نہیں ہے۔
Published: undefined
اس کی وجہ یہ ہے کہ، اس وقت، جرمن سرکاری اسکولوں کی نصابی کتابوں اور اس کے دیگر نصاب میں افریقہ اور مغربی بحر الکاہل میں جرمن نوآبادیات سے متعلق 30 سالہ طویل تاریخ کو تقریبا مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جرمن نوآبادیات کے موضوع پر بعض جرمن ریاستوں میں تو بالکل کچھ بھی نہیں پڑھایا جاتا ہے اور صرف دو ریاستوں میں اسے صرف سرسری طور پر ہی پڑھایا جاتا ہے۔
Published: undefined
جرمن شہر کلون سے تعلق رکھنے والی ابیگائل فوگاہ نے اسی لیے اسکولی نصاب میں تبدیلی کے لیے ایک مہم شروع کی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’نصابی کتب اور نصاب پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ اب تک تقریبا 95 ہزار افراد نے اس کی حمایت میں دستخط بھی کر دیے ہیں۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’فی الوقت جو کچھ بھی پڑھایا جاتا ہے وہ کافی نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے اسکول کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اسکول کے اساتذہ نسل پرستی اور جرمنی کی نوآبادیاتی تاریخ کے بارے میں بہت کم ہی بات کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے، ’’میرے والدین کا تعلق گھانا سے ہے اور (اسی وجہ سے) اسکول میں میری زندگی آسان نہیں تھی۔‘‘
Published: undefined
سن 1884 سے 1916 تک جرمن نوآبادیاتی عہدیدار افریقہ کے مغرب میں، ان علاقوں کے بھی انچارج تھے جس میں آج کے جمہوریہ ٹوگو اور گھانا کے بھی بعض حصے شامل ہیں۔ اس وقت اسے علاقے کو ’ٹوگو لینڈ‘ کہا جاتا تھا جسے جرمن سلطنت ایک ’ماڈل کالونی‘ قرار دیتی تھی۔ لیکن یہاں بھی جرمنوں نے قدرتی وسائل کا استحصال کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا اور انہیں مارا پیٹا بھی جاتا تھا۔
Published: undefined
فوگاہ کا خیال ہے کہ جرمنی میں موجودہ نسل پرستی کو تبھی بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے جب لوگ اس نوآبادیاتی تاریخ کے بارے میں جانیں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر سیاہ فام بچے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ نسل پرستی کا سامنا کریں تو سفید فام بچوں کی بھی اتنی عمر ہوتی ہے کہ وہ نسل پرستی کے بارے میں کچھ سیکھ سکیں۔‘‘
Published: undefined
فوگاہ کہتی ہے کہ انہیں اس مہم میں اب تک ملے جلے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’اس پر تنقید کرنے والوں میں زیادہ تر اساتذہ ہیں۔ وہ ہم پر اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہیں کہ نوآبادیاتی تاریخ پہلے ہی نصاب کا حصہ ہے۔ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ اس موضوع کو پڑھانا لازمی نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
ہولوکاسٹ میں 60 لاکھ یہودیوں کا قتل، دوسری عالمی جنگ، سرد جنگ اور جرمنی کی تقسیم سمیت جرمن تاریخ کی کلاسوں میں تمام اہم موضوعات شامل ہیں، تاہم دیگر موضوعات کے لیے وقت کم بچتا ہے۔
Published: undefined
اس کے لیے اساتذہ کو وقت نکالنے کی ضرورت ہے جیسے کی ہیمبرگ میں اسکول کی ایک استانی اِمکے سٹالمان کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم تقریبا پندرہ برسوں سے طلبہ کے ساتھ ان کے آخری سال میں نوآبادیاتی تاریخ پر کافی توجہ دیتے آئے ہیں۔ نوآبادیاتی تاریخ ایک اہم موضوع ہے جو موجودہ بہت سے مسائل سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
اِمکے سٹالمان نے اپنے طلبہ کو ہیمبرگ میں واقع جرمنی اور مشرقی افریقہ کے درمیان جنگ کا میموریل دکھایا، جہاں نازی دور میں جرمنی کی نوآبادیاتی تاریخ کا جشن بھی منایا جاتا تھا۔
Published: undefined
فوگاہ اور ان جیسے دوسرے کارکنان کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ شاید تمام اسکول اس طرح کی سرگرمیاں ممکن نہ ہو سکیں تاہم وہ پر امید ہیں کہ جرمنی میں طلبہ کو کم سے کم نوآبادیاتی دور کی تاریخ اور اس کے ورثے کے بارے میں جاننے کا موقع مل سکے گا اور پھر نوجوان نسل موجودہ دور کی نسل پرستی اور اس کی وجوہات کو مزید بہتر طور پر سمجھ سکے گی۔
Published: undefined
سن 1884سے 1915کے درمیان اس وقت کے جنوب مغربی افریقہ پر جرمن بادشاہت کی حکومت تھی۔ اس دور میں جرمنی کی فوج نے متعدد بغاوتوں کو انتہائی بے رحمی سے کچل دیا تھا جس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ انتہائی بے رحمی کے لیے مشہور اس وقت کے جرمن جنرل لوتھر وان تروتھاکوسن 1904 میں بغاوت کو کچلنے کے لیے ہیریرو بھیجا گیا تھا۔
Published: undefined
مورخین کا کہنا ہے اس وقت ہیریرو کی آبادی 65 ہزار سے 80 ہزار کے درمیان تھی اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس ہزار تا بیس ہزار لوگ قتل کردیے گئے تھے۔ جرمنی نے اسی برس مئی کے مہینے میں اپنی نو آبادیاتی افواج کے ذریعہ ہیریرو اور ناما کے عوام کی 'نسل کشی‘ کے جرائم کا باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined