افریقی ملک موزمبیق سے تعلق رکھنے والے انتالیس سالہ البیرٹو آڈریانو کو نیو نازیوں نے خوفناک انداز میں قتل کیا تھا۔ اس بہیمانہ قتل نے سارے جرمنی کو صدمے میں لے لیا تھا۔ اڈریانو کو اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ اپنے ایک دوست کے اپارٹمنٹ پر فٹ بال میچ دیکھنے کے بعد اپنے گھر جا رہا تھا۔
Published: undefined
اس کو تقریباً اندھیرے میں تین قاتلوں نے گھیر کر مکے اور ٹھوکریں مارنا شروع کر دیں، حتیٰ کہ وہ بے ہوش کر زمین پر گر پڑا۔ چودہ جون سن 2000 کو البیرٹو اڈریانو تین دن تک بے ہوش رہنے کے بعد سر میں لگنے والی اندرونی چوٹوں کی وجہ سے دم توڑ گیا۔
Published: undefined
قتل کی یہ افسوسناک واردات جرمن وفاقی ریاست سیکسنی انہالٹ کے شہر ڈیساؤ میں ہوئی تھی۔ سابقہ مشرقی و مغربی جرمنی میں دیوارِ برلن کے انہدام اور دونوں ملکوں کے انضمام کے گیارہ برسوں بعد دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے یہ پہلا قتل ڈیساؤ کے سٹی پارک (اسٹڈ پارک) میں کیا تھا۔ اس قتل کی مذمت کے لیے ڈیساؤ میں پانچ ہزار افراد نے مظاہرے میں شرکت کی تھی۔
Published: undefined
Published: undefined
نائجیرین نژاد جرمن گلوکار آڈے اوڈوکویا المعروف آڈے بانٹو کے مطابق اس ظالمانہ قتل کے بعد خوف پھیل گیا تھا۔ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے بانٹو کا کہنا ہے کہ یہ قتل اس لیے بھی اہمیت اختیار کر گیا تھا کیوں کہ اس وقت لوگ نئے ہزاریے کی خوشیاں منانے میں مصروف تھے کہ اس دوران ایک اور نسل پرستانہ ہلاکت ہوئی تھی۔
Published: undefined
آڈے بانٹو اور دیگر افریقی نژاد جرمن گلوکار اس واقعے کو لوگوں کی یاد سے محو نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے دیگر فنکار ساتھیوں کے تعاون سے نسل پرستی کے خلاف آگہی پیدا کرنے کا ایک پراجیکٹ 'برادرز کیپرز‘ شروع کیا تھا (جو فنکاروں کے دوسرے شہروں میں چلے جانے کے باعث کچھ عرصے بعد ہی ختم ہو گیا)۔
Published: undefined
آڈے بانٹو اور ان کے ساتھیوں نے ایک نغمه بعنوان 'اڈریانو۔آخری انتباہ‘ بھی ریلیز کیا، جو ان دنوں جرمنی کے دس مقبول ترین گانوں کی فہرست میں بھی شامل ہو گیا تھا۔
Published: undefined
اڈے اوڈوکویا کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ایسا احساس ہوتا ہے کہ جرمن قومیت لینے کے بعد بھی رنگ و نسل کا فرق برقرار رہتا ہے۔ اس فنکار کا خیال ہے کہ 'اڈریانو۔ ایک انتباہ‘ نے جرمن لوگوں کی وسیع پیمانے پر توجہ حاصل کی تھی اور اس پر جرمن حلقوں میں شناخت کے معاملے پر بحث و تمحیص بھی جاری رہی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نسل پسندی کے خلاف پائے جانے والے جذبات کو ریاست پالیسی کی چھتری ملنا ضروری ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
آڈے بانٹو کے گانے نے 'جرمن پن‘ کے موضوع پر بحث اور آگاہی تو پیدا کی لیکن دو دہائیوں بعد بھی جرمنی میں نسل پرستی کا خاتمہ نہیں ہو پایا۔
Published: undefined
جرمنی کے وفاقی ادارے برائے انسدادِ نسلی امتیاز (ADS) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں نسلی تعصب میں افزائش کے معاشرے پر سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ نسلی امتیاز کے واقعات میں سن 2019 کے دوران اس سے گزشتہ برس کی نسبت دس فیصد اضافہ ہوا اور ایسے واقعات کی تعداد ایک ہزار ایک سو چھہتر رہی۔
Published: undefined
یہ تعداد سن 2015 کے پورے سال کے دوران رپورٹ کردہ نسل پرستی پر مبنی واقعات سے دو گنا بنتی ہے۔ یعنی 2015 کے مقابلے میں اب نسلی تعصب پر مبنی واقعے دوگنا ہو گئے ہیں۔ امتیازی رویوں کے انسداد کے لیے متحرک اماڈیو انٹونیو فاؤنڈیشن کی سربراہ انیتا کہانے کے مطابق یہ حکومتی اعداد و شمار بھی جرمنی میں نسل پرستانہ واقعات کی حقیقی سنگینی کی عکاسی نہیں کرتے۔
Published: undefined
انیتا کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ ایسے رویوں کے انسداد کے ریاستی ادارے مناسب انداز میں فرائض سرانجام نہیں دے رہے۔ انیتا کہانے نے نسل پرستی سے متاثر ہونے والے افراد کی جانب سے شکایات کے اندراج کو مزید آسان بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمن ریاست شلیسوگ ہولشٹائن کی پارلیمنٹ کی نائب صدر امیناتا طورے کا کہنا ہے کہ نسل پسندی کے حوالے سے رونما ہونے والے ہر واقعے پر مناسب کارروائی ضروری ہے۔
Published: undefined
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب بھی اس بابت بات کی جائے تو پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا جرمنی میں نسل پرستی موجود ہے؟ اور یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ لوگ آگاہ نہیں ہیں کہ بے شمار افراد اس ملک میں اس کا شکار ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined