رواں سال اگست میں جاری ہونے والی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میں خودکشی سے مرنے والوں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
Published: undefined
بھارت میں 2021ء میں تقریبا ایک لاکھ چونسٹھ ہزار خود کشی کے واقعات رونما ہوئے اور ان میں سے بیالیس ہزار خودکشی کرنے والے یومیہ مزدور تھے۔ یعنی اپنی جان لینے والے ہر چار میں سے ایک باشندہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور ہوتا ہے۔ دہلی میں مقیم ماہر نفسیات اچل بھگت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملک میں خود اپنی جان لینے والے افراد کی تعداد اور خود کشی کی کوششوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم یہ تعداد بتائے گئے اعداد وشمار سے بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ غربت کئی طرح سے دماغی مسائل کا موجب بن سکتی ہے۔
Published: undefined
ماہرین کے مطابق خودکشی کے رجحانات میں اضافے کی وجہ بیروزگاری، غربت، قرض اور اجرتوں میں کٹوتی جیسے مسائل ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
بھگت نے خود کشی کے بڑھتے واقعات کے محرکات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر اجرت پر کام کرنے والے افراد کو اس بات کی پریشانی رہتی ہے کہ وہ اتنی کم رقم میں کفالت کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے افراد پدرانہ معاشرے میں ایک مرد ہونے کے ناطے اپنے کردار کو پورا نہ کرنے پر احساس جرم کا شکار ہوتے ہیں۔
Published: undefined
ان کے مطابق منشیات کا استعمال اور نفسیاتی عوارض جیسے عوامل ان اجرت پر کام کرنے والے کارکنوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافے کا باعث ہو سکتے ہیں۔ بھگت کے مطابق اس صورتحال میں تبدیلی لانے کے لیے احساس تحفظ کے ساتھ پائیدار معاش، ذہنی صحت اور خودکشی سے بچاؤ کی خدمات تک رسائی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
Published: undefined
بھارت کی 1.3 بلین سے زیادہ آبادی میں سے تقریباً 450 ملین غیر رسمی معیشت سے منسلک ہیں۔ اس ملک کے نصف سے زائد مزدور روزانہ صرف دو سو سے چار سو روپے ہی کما پاتے ہیں۔ غیر ہنر مند افراد کے لیے یہ اجرت طے شدہ سے بھی کم ہوتی ہے، جس کے باعث یہ لوگ مقروض ہو جاتے ہیں اور استحصال کا شکار ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔
Published: undefined
عظیم پریم جی یونیورسٹی اور سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں کے اشتراک سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کورونا کے باعث یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی آمدنی میں شدید کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں غربت میں بھی اضافہ ہوا۔ خواتین اور کم عمر مزدور اس صورتحال سے ناقابل تلافی حد تک متاثر ہوئے۔
Published: undefined
2020ء کے اواخر سے لے کر 2021ء کے آوائل تک یومیہ اجرت پر کام کرنے والے زیادہ تر لوگوں کو کام کے حصول کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ریئل اسٹیٹ، تعمیرات، انفراسٹرکچر اور شہری ترقی جیسے شعبوں کے منصوبوں کو کورونا وبا کے باعث دوبارہ شروع کرنے میں کافی وقت لگا۔
Published: undefined
خودکشی کی روک تھام انڈیا فاؤنڈیشن کے بانی نیلسن ونود موسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ذریعہ معاش کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کو اکثر نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ ان کے پاس کوئی بچت نہیں ہوتی اور وہ قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ٹینا گپتا، جو کہ ایک ماہر نفسیات ہیں، نے جرنل آف ایپیڈیمولوجی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان افراد کی اجرت میں ایک ڈالر کا اضافہ خودکشی کی شرح میں 3.5 سے چھ فیصد تک کی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ مطالعہ بتاتا ہے کہ کس طرح کم اجرت اور خودکشی کے خطرات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ خود اپنی جان لینے کا یہ رجحان مالی تناؤ، سماجی اور اقتصادی استحکام کی کمی اور قرض جیسی کمزوریوں کا ایک پیچیدہ نمونہ پیش کرتا ہے۔‘‘
Published: undefined
نئی دہلی کی ایک اور ماہر نفسیات انجلی ناگپال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اکثر لوگ اپنے خاندان کے اہم کمانے والے ہوتے ہیں، ''ان کی محدود تعلیمی یا پیشہ ورانہ مہارتوں کی وجہ سے اگر انہیں کام سے نکال دیا جاتا ہے یا انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس حالت میں نہیں ہوتے کے وہ اپنا پیشہ تبدیل کریں یا دوست احباب سے مدد طلب کریں۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا کہ اپنے کام اور مالی پریشانیوں کے باعث ایسے افراد اپنی ذاتی زندگی میں جدوجہد کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ اس طبقے میں کسی کی ذہنی صحت کے مسائل سے آگاہ رہنا کوئی ترجیح کی بات نہیں۔ لیکن سماجی اور معاشی حفاظتی اقدامات کے بغیر اور ذہنی صحت کی بہبود تک رسائی کے بغیر بہت سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔
Published: undefined
انڈیا فاؤنڈیشن سے منسلک ونود نے اس بات پر زور دیا کہ خودکشی کی روک تھام کے لیے جو عوامل کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں وہ ہیں، صحت کا بیمہ، قرض ادا کرنے کے لیے امداد، سماجی تحفظ، صحت کے سہولیات تک آسان رسائی۔ اسی طرح صحت عامہ کی ایک ایسی مہم شروع کی جانا چاہیے، جو یہ ظاہر کرے کہ سول سوسائٹی ان افراد کی پرواہ کرتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined