فجر کی نماز کی دو سنتیں یاد رہیں نہ رہیں، چار شادیوں کی اجازت ہر عمر میں یاد رہتی ہے، جسے وہ ہر گفتگو میں شامل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جنسی تعصب پر مبنی مزاح ہمارے معاشرے کا اتنا ہی لازمی جزو ہے، جتنا شاید کرکٹ۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
اگر بات صرف مذہبی اجازت کی ہے تو بیک وقت نہ سہی مگر دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کی اجازت تو طلاق یافتہ يا بیوه خواتین کو بھی ہے۔ اگر خواتین یہی اصطلاحات مذاق میں استعمال کرتی نظر آئیں تو معاشرے کے زیادہ تر حصے کو یہ قطعاً ہضم نہ ہو سکے۔ جس طرح ایک سے زیادہ شادی کرنے والے مرد حضرات کو خوش نصیب اور عورت کو بیچاری قرار دیا جاتا ہے، یہ اس پہلو کی ایک واضح دلیل ہے۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
کسی کا اپنی بیوی پر کتنا رعب ہے اور کون کتنا ڈرتا ہے؟ ہمارے مزاح کا خلاصہ بن کے رہ گیا ہے۔ انتہائی نازک انا کے حامل مرد حضرات ساری عمر طلاق کی دھمکی دے کر اپنی غیرت کو تھپکتے رہتے ہیں اور خواتین کو نیچا دکھا کر کوئی مخصوص اطمینان حاصل کرتے ہیں۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن سے ایک صاحب اکثر لوگوں کو بتاتے تھے کہ انہوں نے اپنی پہلی بیوی کو کس کس وجہ سے گھر سے نکالا تھا۔ ان کی شادی تو درحقیقت تو ایک ہی دفعہ ہوئی تھی مگر اس فرضی بیوی کو گھر سے نکالنے کی مختلف وجوہات انہیں شاید مردانگی کے اونچے مقام پر لے جاتی تھیں، جیسے وہ بیوی ، خاتون یا کسی انسان کی نہیں بلکہ کسی استعمال شدہ پرانی اور بے جان چیز کی بات کر رہے ہوں۔ بچپن سے سنی ہوئی ان کہانیوں کی منطق میں آج تک سمجھ نہیں پائی۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
خاتون کو انسان نہیں بلکہ کسی بے جان شے کے مترداف جان کر کسی بھی مزاح کا حصہ بنانا ایک عام فعل ہے اور میڈیا میں تو عام پایا جاتا ہے، جہاں ہر اشتہار سے ہر پروگرام تک اس کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ اشتہار چاہے موٹر سائیکل کا ہو یا شیونگ کریم کا، کچھ ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارے افسانوں اور فلموں کے مطابق بھی ہیرو وہی ہے، جو لڑکی کے انکار کے باوجود اس کے پیچھے ہی رہتا ہے۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
ہم ویسے تو خواتین کو حراساں کرنے کی مذمت کرتے ہیں مگر اتنی ہی آسانی سے روزمرہ کی گفتگو میں نشانہ بھی بنا لیتے ہیں۔ چھیڑ چھاڑ اور بھونڈی آوازیں کسنا انتہائی معیوب تو سمجھتے ہیں مگر عام لطائف انہی کے اردگرد گردش کرتے ہیں اور فلم و ڈرامہ بھی اس کی بڑھاوا دیتا ہے۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
ڈرامے سے لے کر نجی محافل تک وہ مرد ہیرو سمجھا جاتا ہے، جو یہ کہہ سکے کہ دفتر اور حلقہ احباب میں وہ خواتین میں کس قدر مقبول ہے یا اس کی کتنی گرل فرینڈز ہیں؟ چاہے ان تمام دعوؤں کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہ ہو مگر کہنے میں کیا حرج ہے؟
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
اگر آپ بھی پڑھ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ اس میں کیا برائی ہے تو ذرا کچھ لمحوں کے لیے یہی صورتحال کسی خاتون پر لاگو کر کے سوچیے! اگر کوئی خاتون مرد حضرات میں اپنی مقبولیت یا بوائے فرینڈز کا ذکر کرے تو اس کے کردارکی دھجیاں اڑانے کے لیے شاید کچھ لمحے بھی درکار نہیں ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ قصوروار تو خاتون ہی ہو گی اور ارد گرد کے مرد حضرات کردار کے کسی بلند درجے پر ہی فائز رہیں گے۔ کردار تو عورت کا ہی کمزور ہو سکتا ہے چاہے وجہ مرد کی مقبولیت ہو یا مرد کی دلچسپی۔ یہ وہ جنسی تعصب ہے، جو ہم آج تک ماننے کو تیار ہی نہیں ہوئے۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
کسی حد تک یہ تعصب مردوں کو کمتر ثابت کرنے کے لیے بھی پایا جاتا ہے۔ کوئی بیچاره مرد اپنے ہی گھر کے کسی کام میں مدد کر دے تو وہ زن مرید قرار دے دیا جاتا ہے کیونکہ آخر ساری مردانگی عورت سے کام کروانے کے پیچھے ہی تو چھپی ہے۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
بات کھیل کے میدان کی ہو تو لڑکیوں کی طرح کھیلنا، لڑکیوں کی طرح بھاگنا عام اصطلاحات ہیں۔ بات روز مرہ گفتگو کی ہو تو لڑکیوں کی طرح رونا شاید ہر گھر میں ہی استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔ ایسی باتوں میں تعصب مرد وعورت دونوں کے لیے پایا جاتا ہے۔ ہم مردوں کو جذبات کے اظہار کی اجازت نہیں دے رہے اور ساتھ ہی خواتین کو بھی کمتر ثابت کر رہے ہیں کہ ان کی طرح کچھ بھی کرنا بہرحال کمتری کی ہی نشانی ہے۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
کچھ عرصہ پہلے تک ایسا مزاح شاید پھر بھی کچھ محدود تھا مگر سوشل میڈیا کی مہربانی سے یہ اب ہر جگہ نظر آتا ہے اور قابل قبول بھی سمجھا جاتا ہے۔ واٹس ایپ کے سٹیٹس سے انسٹاگرام تک کچھ بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ابھی حال ہی میں جب نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر دورہ پاکستان ملتوی کیا تو ایسے لطائف عام پائے گئے، جہاں خواتین کو ورزش کرتا دیکھنے کے لیے پولیس اہلکار جمع تھے اور سکیورٹی کی گہری نظر پر مزاح بالکل معیوب نہیں تھا۔ دھچکا تو تب لگتا ہے، جب یہ لطائف پڑھے لکھے، باشعور لوگ بھی شیئر کرتے نظر آتے ہیں۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
جنسی تعصب کا شکار تو سب سے زیادہ خواجہ سرا ہیں مگر اس موضوع پر بات کرنے کے لیے تو شاید ابھی میرے الفاظ بھی اتنے شرمنده ہیں کہ کچھ کہہ نہیں پائیں گے۔ الله کی اس مخلوق کو تو ہم نے کبھی انسان کا درجہ ہی نہیں د يا، عزت دینا تو بہت دور کی بات ہے۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
ابھی بس اتنا ہی کہ سن 2021 میں اگر ہم کچھ باشعور ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور پڑھی لکھی اقوام میں شمار ہونا چاہتے ہیں تو پہلے قدم کے طور پر اس تعصب کے خاتمے کے لیے ہمیں کم از کم ایسے مزاح اور جملوں پر تالی بجانے اور انہیں مزید بڑھاوا دینے سے پر ہیز کرنا ہو گا۔ دوسرے بہت سے ممالک میں بھی عام گفتگو سے لے کر فلموں اور مختلف پروگراموں تک یہ مزاح پایا جاتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب اس کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں بھی اس راہ پر چلنے کی ضرورت ہے، جو معاشرے میں اور نئی نسل میں سلجھاؤ کے لیے ایک اہم کاوش ثابت ہو سکتی ہے۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Dec 2021, 7:11 AM IST