سماج

برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟

لز ٹرس کے استعفی کے بعد ہر شخص کے ذہن میں یہی سوال گردش کررہا ہے کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا۔ متنازعہ اقتصادی پروگرام کے سبب مستعفی ہونے والی لز ٹرس کے جانشین کے لیے بھی اقتدار سنبھالنا آسان نہیں ہو گا۔

برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟
برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟ 

صرف 45 دنوں کے لیے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والی لز ٹرس برطانیہ کی سب سے کم عرصے کے لیے اقتدار میں رہنے والی رہنما بن گئی ہیں۔ ان سے قبل یہ ریکارڈ جارج کیننگ کے نام تھا جو 1827 میں اپنی وفات سے قبل صرف 119 دنوں تک وزیر اعظم رہے تھے۔

Published: undefined

لز ٹرس نے بہر حال برطانیہ کی تیسری خاتون وزیر اعظم کے طور پر بھی تاریخ میں اپنا نام درج کرا لیا ہے۔ اس سے قبل مارگریٹ تھیچر اور تھریسا مے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوچکی ہیں۔

Published: undefined

اگلے ہفتے تک پارٹی کے قائد کا انتخاب مکمل ہونے تک لزٹرس وزیر اعظم کا کام دیکھتی رہیں گی۔ تاہم یہ سوال سب کے ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ ان کا جانشین کون ہوگا۔ حکمراں کنزرویٹیو پارٹی میں اختلافات کو دیکھتے ہوئے،ممکنہ کساد بازاری کی طرف بڑھتے ہوئے برطانیہ کی قیادت سنبھالنے والا کوئی متفقہ امیدوار نظر نہیں آرہا ہے۔

Published: undefined

نئے قائد کے لیے نامزدگیاں پیر کو بند ہوجائیں گی۔ قیادت کی خواہش مند امیدواروں کو دوڑ میں شامل ہونے کے لیے کم از کم 100 اراکین پارلیمان کی حمایت ضروری ہے۔

Published: undefined

لز ٹرس کے ممکنہ جانشین کون ہوسکتے ہیں؟

رشی سوناک کنزرویٹیو اراکین پارلیمان کے درمیان مقبول ترین امیدواروں میں سے ایک ہیں۔ سابق برطانوی وزیر خزانہ چھ ہفتے قبل پارٹی کی قیادت کے لیے ہونے والے انتخابات میں لز ٹرس سے ہار گئے تھے۔ کنزرویٹیو پارٹی کے سینیئر رکن پارلیمان میل اسٹرائیڈ نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ وہ بھارتی نژاد 42 سالہ سوناک کی حمایت کریں گے۔

Published: undefined

رشی سوناک کے ساتھ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی کے بہت سارے ممبران ان کے سابقہ رویے سے ناراض ہیں۔ جب انہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا جس کے نتیجے میں سابق رہنما بورس جانسن کے خلاف بغاوت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور بالآخر انہیں وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ پارٹی کے بہت سے اراکین، پارٹی امور میں جن کی رائے کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے، رشی سوناک کو ان کے سابقہ رویے کے لیے معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

Published: undefined

بورس جانسن بھی پرامید

برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق بورس جانسن جو فی الوقت بیرون ملک میں چھٹیاں گزار رہے تھے، ہفتے کے روز وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ وہ لزٹرس کے جانشین کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

Published: undefined

متعدد تنازعات کے سبب وزیر اعظم کے عہدے سے استعفی دینے کے لیے مجبور ہوجانے والے بورس جانسن نے مستعفی ہوتے وقت بھی ایسے اشارے دیے تھے کہ وہ جلد ہی دوبارہ اپنا عہدہ واپس لینے کی کوشش کریں گے۔ تاہم کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ انہیں اس کا موقع اتنی جلد مل جائے گا۔ یو گو پول کے ایک حالیہ نتائج کے مطابق 58 سالہ جانسن گوکہ ٹرس سے کہیں زیادہ مقبول ہیں۔ تاہم رائے شماری میں شامل دو تہائی افراد نے جانسن کے حوالے سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

Published: undefined

دیگر ممکنہ امیدوار

برطانوی وزیر دفاع بین ویلیس بھی ممکنہ امیدواروں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ سابق فوجی افسر ویلیس، جانسن اور ٹرس دونوں کی وزارت میں وزیر دفاع رہے ہیں۔

Published: undefined

اپنی پارٹی میں مقبول ویلیس نے اس سال کے اوائل میں اس وقت حیران کردیا تھا جب انہوں نے کہا کہ وہ پارٹی کی قیادت کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ تاہم حال ہی میں 52 سالہ رہنما سے جب پارٹی کی قیادت کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا "میں اس کو مسترد نہیں کرتا۔"

Published: undefined

ویلیس نے یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف عالمی اقدامات کے حوالے سے برطانیہ کے قائدانہ رول میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ اس ٹیم کا بھی حصہ تھے جو پیرس میں کار حادثے میں ہلاک ہونے والی شہزادی ڈائنا کی لاش برطانیہ لے کر آئی تھی۔

Published: undefined

سابق وزیر دفاع پینی مورڈاونٹ، بین الاقوامی تجارت کی وزیر کیمی بیڈینوچ، سابق وزیر داخلہ سوویلا بریورمین اور وزیر خزانہ کواسی کوارٹینگ کو برطرف کرنے کے بعد 14 اکتوبر کو اس عہدے پر فائز کیے جانے والے جریمی ہنٹ بھی لز ٹرس کے ممکنہ جانشینوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined