سماج

سرد جنگ کے زمانے کا ’چھتری والا قاتل‘ کون تھا؟

ڈنمارک کی ایک نئی ڈاکومنٹری میں پراسرار کردار فرانچیسکو گولینو پر کچھ روشنی ڈالی گئی ہے، جنہیں ’ایجنٹ پیکیڈیلی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس&nbsp;</p></div>

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس 

 

بلغاریہ کے ایک صحافی ہرِسٹو ہرسٹوف کی طرف سے فرانچسیکو سے متعلق ایک انٹیلی جنس فائل کو ریلیز کرانے کے لیے ایک قانونی جنگ جیتنے کے بعد دنیا کو معلوم ہوا کہ اٹلی میں پیدا ہونے والے ڈنمارک کے شہری گولینو نے بلغاریہ کی سیکرٹ سروس کے لیے 1971ء میں کام کا آغاز کیا۔

Published: undefined

آج کے دن تک گولینو کو 'امبریلا اسیسینیشن‘ نامی کیس کا مرکزی مشتبہ شخص تصور کیا جاتا ہے۔ یہ کیس بلغاریہ کے ایک مصنف اور حکومت مخلاف جورجی مارکوف کے قتل کا تھا، جو لندن میں 1978ء میں ہوا۔ مارکوف کو لندن کے ایک بس اسٹاپ پر ایک خاص طور پر تیار کی گئی چھتری کی نوک سے زخم لگایا گیا، جس میں زہر موجود تھا۔

Published: undefined

ایک ڈینش ٹی وی ڈاکومینٹری میں صحافی اُلرک اسٹوک نے فرانچیسکو گولینو کے بارے میں کچھ حیران کن تفصیلات کا پتہ چلایا ہے، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ قتل کے کئی ایک معاملات کے ذمہ دار تھے، جنسی طور پر منحرف فسطائیت پسند اور بدنام زمانہ دھوکے باز تھے۔

Published: undefined

بلغاریہ کی سیکرٹ سروس

گولینو کے بطور ایک خفیہ ایجنٹ سفر کا آغاز 1970ء میں اس وقت ہوا جب انہیں اسمگلنگ اور استعمال شدہ کاروں کی غیر قانونی تجارت کے الزام میں بلغاریہ میں حراست میں لیا گیا۔ اس کے کچھ وقت بعد انہیں بلغاریہ کی سیکرٹ سروس نے اپنا ایجنٹ بنا لیا اور انہیں 'پیکیڈیلی‘ کا کوڈ نام دیا گیا۔

Published: undefined

1978ء میں بلغاریہ کی سیکرٹ سروس کے سینیئر ارکان کی طرف سے ان کے اعزاز میں ایک شاندار عشائیے کا اہتمام کیا گیا اور انہیں لندن میں تعینات کیا گیا۔ یہ مارکوف کے قتل کے وقت کا دور تھا۔ اس دور سے متعلق تمام طرح کی دستاویزات 'پیکیڈیلی‘ کی فائل سے 1990ء میں ہٹا دی گئیں اور انہیں تلف کر دیا گیا۔

Published: undefined

اس وقت بلغاریہ کی سیکرٹ سروس کے سربراہ ولادیمیر ٹوروڈوف کو 1992ء میں اس کیس سے متعلق دستاویزات تلف کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا۔ ان کے سینیئر اور اس معاملے میں شریک نائب وزیر اعظم جنرل اسٹویان سیووف نے مقدمے سے بچنے کے لیے خودکشی کر لی تھی۔

Published: undefined

فسطائیت پسند کمیونسٹ جاسوس

بلغاریہ کی سیکرٹ سروس شاید اس بارے میں بے خبر تھی جو اسٹوک کی ڈاکومنٹری منظر عام پر لائی ہے کہ گولینو اپنی زندگی میں فسطائیت پسند تھے۔ ڈنمارک کے صحافی کے پاس گولینو کے قبضے میں رہنے والی ہٹلر کی کتاب 'مائن کامپف‘ کی کاپی اور میسولینی کی تصاویر پر مبنی کیلنڈر بھی موجود ہے۔

Published: undefined

گولینو کے شدت پسندانہ سیاسی جھکاؤ نے جنسی انحراف کے رویے میں کردار ادا کیا۔ بچے کے طور پر انہوں نے کئی برس اپنی خالہ کے ساتھ اٹلی میں گزارے جہاں وہ ایک قحبہ خانہ چلاتی تھیں۔ بظاہر اسی تجربے کے سبب انہوں نے اپنی ساری زندگی جسم فروش خواتین کے درمیان ہی گزاری۔

Published: undefined

گولینو کی تیسری زندگی بطور ایک فحش نگار

انہوں نے ایسی خواتین کو جنسی عمل کے دوران نازی پرچم لپیٹ کر تصاویر بنوانے اور فاشسٹ یونیفارم پہن کر تصاویر بنوانے کے لیے ادائیگی بھی کی۔ گولینو نے ایک فوٹو اسٹوڈیو بنایا اور ایک سیکرٹری بھی رکھی۔

Published: undefined

ڈینش ڈاکومنٹری ٹیم نے ایسی 100 تصاویر کا پتہ چلایا ہے۔ اسٹوک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گولینو کی جنسی ترجیحات ان کی تیسری زندگی تھی، ایک قابل احترام شخصیت اور سیکرٹ سروس کے لیے ان کی خدمات کے ساتھ ساتھ۔

Published: undefined

فروری 1993ء میں گولینو سے ڈنمارک کی سیکرٹ سروس اور اسکاٹ لینڈ یارڈ نے مارکوف کے قتل سے متعلق تفتیش بھی کی۔ اس تفتیش کے دوران گولینو تفتیش کاروں کو چکر دینے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے 1970ء میں بلغاریہ کی سیکرٹ سروس کی حراست کے دوران یہ ہنر سیکھ لیا تھا کہ تفتیش کے دوران خود کو کیسے بچانا ہے۔

Published: undefined

نئی معلومات کا ذریعہ

لیکن گولینو کے بارے میں نئی معلومات آئی کہاں سے؟ 1993ء میں جب مارکوف کے قتل کے سلسلے میں تفتیش کی گئی تو اس کی اگلی صبح وہ کوپن ہیگن میں اپنے ایک دوست فرانکو اِنورنیزی کے گھر پہنچے جو صحافی اور ڈائریکٹر تھے۔ گولینو کافی مشتعل تھے۔

Published: undefined

اس کے بعد کے مہینوں میں ان کی کمپنی دیوالیہ ہو گئی اور وہ اپنے دوست کے ساتھ رہنے لگے۔ اسی وقت کے دوران گولینو نے انورنیزی کو اپنی زندگی کی کہانی سنائی اور انہیں اپنی دستاویزات، نوٹ بُکس، تصاویر دیں جس کا مقصد مبینہ طور پر انورنیزی کی طرف سے گولینو کے بارے میں ایک فلم 'دی ٹرو اسٹوری آف دی مارکوف مرڈر‘ بنانا تھا۔ اس کے چھ ماہ بعد گولینو نے ڈنمارک چھوڑ دیا۔ وہ تمام چیزیں جو گولینو نے انورنیزی کو دی تھیں، وہی اس نئی ڈاکومنٹری فلم کی بنیاد ہیں۔ اسٹوک اور ان کی ٹیم نے 2021ء میں آسٹریا کے شہر ویلز میں گولینو کا انٹرویو بھی کیا تھا۔

Published: undefined

گولینو، ایک گرگٹ

تو، فرانسسکو گلینو کون تھے؟ جنسی طور پر منحرف فسطائیت پسند؟ ایک آرٹ ڈیلر؟ ایک خفیہ ایجنٹ؟ قتل کے کئی ایک معاملات کے ملزم؟ ایک بدنام زمانہ دھوکہ باز اور جھوٹے؟ گولینو کچھ بھی اور کوئی بھی روپ دھار لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کے دوست ہر جگہ تھے۔ ہر ایک کے لیے ان کے پاس ایک مناسب کہانی اور ہر سوال کا جواب موجود تھا، چاہے کتنی ہی تحقیقات کیوں نہ ہوں۔

Published: undefined

جیسا کہ حال ہی میں دریافت کیا گیا مواد ظاہر کرتا ہے، دہائیوں کی کہانیوں، جھوٹ اور آدھی سچائیوں کے نیچے دبے حقیقی فرانسسکو گلینو کو تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ شاید ایک حقیقی فرانچیسکو گولینو کبھی وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ جہاں تک اُلرک اسکوٹ کا تعلق ہے، تو ان کے خیال میں گولینو سب سے بڑھ کر ایک گرگٹ کی طرح تھے، جس نے انہیں ایک مثالی خفیہ ایجنٹ بنا دیا۔

Published: undefined

گولینو 2021ء کی موسم گرما میں اپنے گھر میں تنہائی میں انتقال کر گئے۔ ان کی لاش ان کی موت کے ایک ہفتے بعد ملی تھی۔ اس کی لاش کو جلا کر ایک گمنام مقام پر ان کی تدفین کی گئی۔ سکوٹ کا کہنا ہے کہ مرنے سے ٹھیک پہلے، گلینو نے ڈینش فلم کے عملے کو ایک بار پھر کال کی۔ مگر لائن کے دوسرے سرے پر وہ صرف گھرگھراہٹ کی آوازیں سن سکے تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined