سماج

اصل فاتح کون ہوتا ہے؟

تاریخ میں جب بھی جنگوں کا ذکر آتا ہے تو ان میں فاتحین یا تو بادشاہ ہوتا ہے یا فوجی جرنل۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ میں عام فوجیوں کو فاتح قرار دیا جائے کیونکہ بادشاہ یا جرنیل جنگ میں حصہ نہیں لیتے۔

اصل فاتح کون ہوتا ہے؟
اصل فاتح کون ہوتا ہے؟ 

عام طور پر ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ جنگ میں فتح بادشاہ یا فوجی جرنل کی حکمت عملی سے ہوئی تھی۔ لیکن وہ عام فوجی جنہوں نے لڑائی میں حصہ لیا تھا زخمی ہوئے تھے اور مارے گئے تھے، ان کا ذکر تاریخ میں نہیں آتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ جنگ میں دس ہزار یا پندرہ ہزار فوجی مارے گئے۔ جنگ کی فتح میں ان کو شریک نہیں کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

اگر ان فوجیوں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فوجی خدمت کے دوران انہوں نے کتنی تکلیفیں برداشت کی تھیں اور زندگی کی بے شمار سہولتوں سے محروم رہے تھے۔ مثلاً یونان جب کسی ملک پر حملہ کرتا تھا تو فوجی لشکر دور دراز کے علاقوں میں جا کر جنگ کرتے تھے۔ یہ اپنے گھر اور خاندان سے جدا ہو جاتے تھے۔ مہینوں اور سالوں ان سے کوئی رابطہ نہیں رہتا تھا۔ جب لشکر واپس آتا تھا تو اس وقت ان کے گھر والوں کو پتہ چلتا تھا کہ ان کے مرد زندہ ہیں یا مارے گئے۔ اس کی ایک مثال ٹرائے کی جنگ ہے، جس کے بعد جب یونانی فوجی واپس آئے تو انہیں بدلی ہوئی دنیا ملی۔

Published: undefined

فوجیوں کی زندگی کا یہ سلسلہ پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اگرچہ جنگیں حکمران طبقے کے مفادات میں ہوتی تھیں مگر عام فوجیوں کو کبھی مذہب اور کبھی عزت اور غیرت کے نام پر قربان کر دیا جاتا تھا۔ اہل اسپارٹا عزت کے نام پر جنگ میں لڑتے ہوئے مرنا پسند کرتے تھے اور فرار ہونا ان کی بے عزتی ہوتی تھی۔ ہندوستان میں راجپوت جب اپنی شکست دیکھتے تھے تو جوہر کی رسم ادا کرتے تھے۔ اپنے بیوی بچوں کو قتل کر کے زعفرانی لباس پہن کر مرتے دم تک لڑتے تھے۔

Published: undefined

جب یورپی ملکوں نے ایشیا اور افریقہ میں فتوحات کیں تو ان کے فوجی بھی سات سمندر پار کر کے یہاں آئے۔ ان ملکوں کی آب و ہوا ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ موسم کی سختیوں اور وباؤں نے ان کی جانیں لے لیں، مگر اُن کی قربانیوں کی بدولت یورپ کے سامراجی ملکوں نے اپنا سیاسی تسلط قائم کیا اور مقبوضہ کالونیز اور ذرائع کو لوٹا۔ اس لوٹ کا زیادہ حصہ حکمران طبقوں میں آیا اور عام فوجیوں کو تھوڑا بہت دے کر ان پر احسان کیا گیا۔

Published: undefined

تاریخ میں اسکندر اور جولیس سیزر کو گریٹ بنانے کے عمل میں عام فوجیوں کا حصہ تھا، جنہوں نے جنگیں لڑ کر فتوحات کو ان سے منسوب کر دیا۔ 1812ء میں جب نپولین نے ایک بڑی فوج اکٹھی کر کے روس پر حملہ کیا۔ وہ ماسکو تک تو پہنچ گیا مگر جب روس نے ہتھیار نہیں ڈالے تو وہ واپس پلٹا لیکن شدید برف باری اور روسی فوج کے حملوں نے اس کے لشکر کو تباہ و برباد کر دیا۔ فوج کو دشمن کے نرغے میں چھوڑ کر واپس آ گیا۔ 1814ء اور 1815ء میں جب اسے دوبارہ یورپی ملکوں سے جنگیں لڑنا پڑیں تو اس نے زبردستی صحت مند جوانوں کو فوج میں بھرتی کیا۔

Published: undefined

انگلستان میں بھی یہ دستور تھا کہ لوگ بحریہ کی ملازمت سے دور بھاگتے تھے۔ کیونکہ جہاز کی زندگی انتہائی تکلیف دہ تھی۔ کھانے پینے کی مشکلات تھیں۔ ذرا سی غلطی پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ بحری جنگوں میں مرنے والوں کو سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا۔ اس وجہ سے نوجوانوں کو اغوا کر کے جہازوں پر لے جاتے تھے، جہاں سے فرار ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔ عام سیلرز کو اس قربانی کا کوئی صلہ نہیں ملتا تھا۔

Published: undefined

پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران ہندوستان کی انگریز حکومت نے جاگیرداروں کی مدد سے گاؤں کے صحت مند نوجوانوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کروایا اور پھر انہیں یورپ میں جنگی محاذوں پر بھیج دیا۔ پہلی عالمی جنگ میں یہ فوجی خندقوں میں رہ کر جنگ کرتے تھے۔ سرد موسم اور بارش کی وجہ سے خندوں میں پانی بھر جاتا تھا۔ ہندوستان کے فوجیوں کے لیے یہ آب و ہوا ناقابل برداشت تھی۔ جنگ میں مرنے والے ہندوستانی فوجیوں کو وہیں دفن کر دیا گیا۔ ان کے خاندان والوں کو بعد میں اطلاع ملی کہ وہ زندہ نہں رہے ۔ یہ وہ جنگ تھی کہ جس سے ہندوستانیوں کو کوئی واسطہ نہ تھا۔ انگلستان کی حکومت نے انہیں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر استعمال کیا۔

Published: undefined

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عام لوگ کیوں فوجی service اختیار کرتے تھے اور کیوں وہ حکمران طبقوں کے مفادات کی خاطر جانیں دیتے تھے۔ جدید دور میں قوم پرستی اور وطن کے نام پر لوگوں کے جذبات کو اُبھارا جاتا تھا۔ ان میں بہادری اور شجاعت کے جذبات پیدا کرنے کے لیے جنگ میں کارنامے سرانجام دینے پر تمغے دیے جاتے تھے۔ جیسے برطانیہ وکٹورین کراس کا تمغہ کسی بہادر جنگجو کو دیتی تھی۔ اس کے علاوہ چونکہ فوجیوں کی بڑی تعداد جنگ میں جان دے دیتی تھی۔ اس لیے ان کی یاد میں یادگاریں تعمیر کرتے تھے اور ایک انجانے سولجر کا مجسمہ بنا کر اسے بطور علامت مرنے والے فوجیوں کا نمائندہ کہہ کر اس پر پھول نچھاور کرتے تھے۔

Published: undefined

ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ میں عام فوجیوں کو فاتح قرار دیا جائے کیونکہ بادشاہ یا جرنیل گھمسان کی جنگ میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ یہ عام فوجی ہوتے تھے، جو بہادری سے لڑتے ہوئے حکمرانوں کو فتح یاب کرتے تھے۔ انہیں فتح کی کامیابی میں شریک کرنا ضروری ہے تاکہ وہ محض گمنام فوجی نہ رہیں اور اجتماعی طور پر ان کے کارناموں کو تاریخ کا حصہ بنا کر انہیں عزت و عظمت دینا بھی ضروری ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined