یہ 14 فروری 1989ء منگل کا دن تھا جب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نےبھارتی نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی کو ان کی کتاب 'سٹینک ورسز‘ لکھنے پر انہیں قتل کر دینے کا فتویٰ دیا تھا۔ خمینی کا استدلال تھا کہ رشدی نے اپنے اس ناول میں مذہب اسلام کی توہین کی تھی۔
Published: undefined
اپنے فتوے میں آیت اللہ خمینی نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اس کتاب کے مصنف اور ناشرین کو جلد از جلد قتل کر دیں تاکہ ''پھر کوئی بھی اسلام کی مقدس اقدار کو ٹھیس پہنچانے کی جرآت نہ کرے۔‘‘ آیت اللہ خمینی اس وقت 89 برس کے تھے اور اس فتوے کے بعد وہ محض چار مہینے ہی زندہ رہے۔
Published: undefined
اپنے فتوے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی شخص سلمان رشدی کی موت کی سزا پر عملدرآمد کرتے ہوئے خود بھی مارا جاتا ہے تو وہ 'شہید‘ ہو گا اور جنت میں جائے گا۔سلمان رشدی کی جان لینے والے کے لیے 2.8 ملین ڈالر کی رقم انعام کا بھی اعلان کیا گیا۔
Published: undefined
آیت اللہ خمینی کی طرف سے سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ دیے جانے کے بعد برطانوی حکومت نے سلمان رشدی کی حفاظت کی ذمہ داری پولیس کو سونپ دی۔ قریب 13 برس تک وہ جوزف انٹون کے فرضی نام سے مخلتف 'سیف ہاؤسز‘ یا محفوظ مقامات پر منتقل ہوتے رہے۔ پہلے چھ ماہ کے دوران تو 56 مرتبہ ان کے ٹھکانے بدلے گئے۔
Published: undefined
رشدی کی مشکلات اس وقت اور بھی بڑھ گئیں جب ان کی امریکی ناول نگار اہلیہ ماریانے وِگنز سے ان کی علیحدگی ہو گئی۔ 'سٹینیک ورسز‘ انہی کو منسوب کی گئی تھی۔
Published: undefined
رشدی نے 2012ء میں اپنی سرگزشت میں اپنی ڈائری میں درج یاد کا ذکر کیا، ''میں بندھا ہوا ہوں اور جیل میں ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا تھا، ''میں بول بھی نہیں سکتا۔ میں ایک پارک میں اپنے بیٹے کے ساتھ فٹبال کو کِک کرنا چاہتا ہوں۔ عام معمول کی زندگی: میرا ناممکن خواب۔‘‘
Published: undefined
سلمان رشدی کی کتاب 'سٹینک ورسز‘ پبلشر وائکنگ پینگوئن کی طرف سے ستمبر 1988ء میں شائع کی گئی۔ اکتوبر 1988ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اس کتاب کی بھارت میں درآمد پر پابندی عائد کر دی، اس امید پر کہ شاید وہ آئندہ انتخابات میں بھارتی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کر سکیں گے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ بھی دنیا کے قریب 20 دیگر ممالک نے اس کتاب پر پابندی عائد کر دی۔ جنوری 1989ء میں برطانیہ کے شمالی شہر بریڈفورڈ میں مسلمانوں نے کھلے عام اس کتاب کی کاپیاں نذر آتش کیں۔
Published: undefined
اس کے قریب ایک ماہ بعد ہزاروں پاکستانیوں نے دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی 'انفارمیشن سینٹر‘ پر حملہ کیا۔ مظاہرین سلمان رشدی کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پانچ مظاہرین مارے گئے۔
Published: undefined
خمینی کے فتوے نے مغربی دنیا میں خوف وہراس پیدا کر دیا۔ یورپ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور لندن اور تہران کے سفارتی تعلقات قریب 20 برس تک منقطع رہے۔ رشدی نے 1990ء میں اپنے ایک مضمون 'اِن گُد فیتھ‘ میں اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش مگر یہ چیز بہت سے مسلمانوں کے لیے تسلی کا باعث نہ بن سکی۔
Published: undefined
رشدی نے 1991ء میں بتدریج عوامی زندگی کی طرف واپس آنے کی کوشش شروع کر دی، لیکن ان کے جاپانی مترجم کو اسی برس کے آخر میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے اطالوی مترجم بھی کچھ دنوں کے بعد چاقو حملے کا نشانہ بنے جبکہ ناورے کے پبلشر دو برس بعد گولی کا نشانہ بنے۔ حالانکہ یہ بات کبھی واضح نہیں ہوئی کہ آیا یہ حملے خمینی کے فتوے کی وجہ سے ہوئے تھا یا نہیں۔
Published: undefined
1993ء میں مسلمان مظاہرین نے وسطی ترک شہر سیواس کے ایک ہوٹل کو نذر آتش کر دیا کیونکہ وہاں عزیز نسیم موجود تھے جو سلمان رشدی کے اس ناول کا ترکی میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے۔ عزیز نسیم تو وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر 37 دیگر افراد مارے گئے۔
Published: undefined
1998ء میں تاہم ایران کے اصلاحات پسند صدر محمد خاتمی نے برطانیہ کو یقین دہانی کرائی کہ ایران اب اس فتوے پر عمل نہیں کرے گا۔ تاہم خمینی کے پس رو آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2005ء میں کہا کہ وہ اب بھی یہی یقین رکھتے ہیں کہ سلمان رشدی ایک 'مرتد‘ ہیں اور اسلام کے رو سے ان کا قتل جائز ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز