محبت کی لافانی یادگار اور دنیا کے عجائبات میں شامل تاج محل کے حوالے سے تنازعات کوئی نئی بات نہیں، جسے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں سترہویں صدی میں آگرہ میں تعمیر کرایا۔ دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتیں مغلوں کی تعمیر کردہ دیگر کئی اہم تاریخی عمارتوں کی طرح تاج محل کو بھی ہندو مندر ہونے کے دعوے کرتی رہی ہیں۔
Published: undefined
ہندوتو کے علمبردار اور خود کو مورخ قرار دینے والے مراٹھی برہمن پرشوتم ناگیش اوک (پی این اوک) نے سن 1965 میں ''تاج محل تیجو مہالیہ ہے‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ کر اس تنازعے کو ہوا دی۔ اوک کعبہ اور ویٹیکن سٹی کو بھی ہندو مندر قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے تاج محل کو شیو مندر ثابت کرانے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا تاہم سپریم کورٹ نے سن 2000 میں ان کی درخواست مسترد کر دی۔
Published: undefined
لیکن اوک کی تھیوری کی بنیاد پر تاج محل کے حوالے سے مختلف عدالتو ں میں کیس دائر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ اگست 2017 ء میں بھارتی آثار قدیمہ نے واضح بیان میں کہا تھا کہ تاج محل میں کسی مندر کے آثار اور اس کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔
Published: undefined
بی جے پی رہنما سنگیت سوم نے سن 2017 میں تاج محل کو بھارتی ثقافت پر ایک 'دھبہ' قرار دیا کیونکہ ان کے بقول اسے"غداروں نے بنایا تھا۔" گزشتہ ہفتے ہی بی جے پی کی ایک ہندو رکن پارلیمان نے دعوی کیا کہ شاہ جہاں نے ان کے شاہی خاندان کی ملکیت والی زمین پر قبضہ کر کے یہ یادگار تعمیر کرائی لہذا اس پر ان کا حق ہے۔
Published: undefined
ان دعوؤں کے درمیان قوم پرست ہندوؤں کا ایک طبقہ بڑے زور شور سے یہ افواہیں بھی پھیلاتا رہا ہے کہ تاج محل کے 22 کمروں کو اس لیے مقفل رکھا گیا ہے کیونکہ ان میں مبینہ طور پر ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے آثار اور علامات محفوظ ہیں۔ حالانکہ تاج محل کی دیکھ بھال پر معمور آثار قدیمہ کے اہلکار اس کی مسلسل تردید کرتے رہے ہیں۔
Published: undefined
'ورلڈ مونومینٹس فنڈ انڈیا ایسوسی ایشن' کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور کنزرویٹر امیتا بیگ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس طرح کے دعوؤں کی واضح طور پر تردید کی۔
Published: undefined
امیتا بیگ نے بتایا کہ انہوں نے تقریباً بیس برس قبل اس جگہ کو دیکھا تھا، ''یہ کوئی کمرے نہیں بلکہ راہداری ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ شاہ جہاں اکثر دریائے جمنا پر کشتی کے ذریعہ تاج محل پہنچتے تھے اور سیڑھیوں یا گھاٹوں کے ایک وسیع سلسلے سے گزرتے ہوئے مقبرے میں داخل ہوتے تھے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ یہ 'کمرے' ٹھنڈے رہتے تھے، اس لیے شاہ جہاں گرمی کے دنوں میں اکثر اس جگہ کچھ دیر قیام بھی کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا، ''میں نے دیکھا ہے کہ اس جگہ کو بڑی خوبصورتی سے پینٹ کیا گیا ہے۔ یہ یقیناً ایک شہنشاہ کی گزر گاہ تھی۔‘‘
Published: undefined
امیتا بیگ بتاتی ہیں کہ سن 1978 سے قبل تک یہ 'کمرے‘ سیاحوں کے لیے کھلے تھے۔ لیکن جمنا میں سیلاب آنے کی وجہ سے پانی عمارت میں بھی داخل ہو گیا تھا، جس کے بعد اس میں کچھ دراڑیں پڑ گئیں اور حکام نے عوام کے لیے انہیں بند کر دیا۔
Published: undefined
محکمہ آثار قدیمہ کے ایک عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ان 'کمروں‘ میں کچھ بھی نہیں ہے اور اب بھی انہیں صفائی وغیرہ کے لیے ہفتے پندرہ دنوں میں کھولا جاتا ہے لیکن سکیورٹی اسباب کی بنا پر عام سیاحوں کو ان میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
Published: undefined
معروف بھارتی ماہر آثار قدیمہ اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سابق ریجنل ڈائریکٹر کے کے محمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعدد بار ان کمروں کو دیکھا ہے، ان میں کوئی مذہبی علامت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کمرے مغل دور کی دیگر تعمیرات میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ دہلی میں ہمایوں کے مقبرے اور صفدر جنگ مقبرے میں بھی اس طرح کے کمرے موجود ہیں۔ لاہور میں بھی مغلیہ دور کے ایک قلعے میں اس طرح کے کمرے موجود ہیں۔
Published: undefined
مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں ہندو قوم پرستی اور ہندو شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے وہیں مسلمانوں اور بالخصوص مغل دور حکومت سے وابستہ یادگاروں کو ہندو یادگار ثابت کرنے کی مہم بھی تیز ہو گئی ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ کو مسخ کرکے سیاسی فائدے کے لیے جعلی خبروں، جھوٹی تاریخ اور ہندوؤں کے ساتھ زیادتی اور ان کی مظلومی کے احساس کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھارت کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined