دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے یہ جنگجو نجی حیثیت میں نام نہاد جہاد یا پھر بوسنیا کے مسلمانوں کی مدد کے لیے سابق یوگوسلاویہ پہنچے تھے۔ ان جنگجوؤں نے سرب اور کروآٹ فوجوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ جو پاکستانی بوسنیا پہنچے، ان میں اکثریت برطانیہ میں پیدا ہونے والے پاکستانی نژاد شہریوں کی تھی۔
Published: undefined
یہ نوجوان جنگجو سابق یوگوسلاویہ کی لڑائی میں مسلمانوں کے خلاف سرب فوج کی جارحیت کا علم ہونے کے بعد بوسنیا پہنچے تھے۔ سرب اور کروآٹ فوجوں کے خلاف لڑنے والے مقامی بوسنیائی باشندوں کے مطابق ان غیرملکی جنگجوؤں نے لڑائی میں حصہ ضرور لیا تھا لیکن ان کی تعداد انتہائی کم تھی۔ اس لیے یہ جنگ میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر سکے تھے بلکہ ان جنگجوؤں کی موجودگی سے سرب فوج کو بوسنیائی مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کا موقع مل گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سرب فوج نے بوسنیا میں مقامی مسلم آبادی کی طرف سے مسلح مزاحمت کو بنیاد پرستوں مسلمانوں کی لڑائی قرار دیا تھا اور دعویٰ یہ کیا تھا کہ بوسنیا کے مسلمان بلقان کے خطے میں اسلامی شرعی نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔
Published: undefined
اس پروپیگنڈا کے شواہد اس بات سے بھی ملتے ہیں کہ جب سابق یوگوسلاویہ میں جنگ کے اختتام پر دی ہیگ میں جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں 'انٹرنیشنل کریمینل ٹریبیونل فار فارمر یوگوسلاویہ‘ قائم ہوا اور سابق یوگوسلاویہ کے صدر سلوبوڈان میلوشےوچ کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو میلوشےوچ سابق یوگوسلاویہ کی جنگ میں پاکستانی جنگجوؤں کی شرکت کا ذکر تواتر سے کرتے تھے۔ ان کی مسلسل کوشش ہوتی تھی کہ عدالت کے ججوں کو قائل کریں کہ بوسنیائی سرب فوج تب بنیادی پرست غیر ملکی مسلم جنگجوؤں کے خلاف لڑ رہی تھی۔
Published: undefined
وسطی بوسنیا اور جمہوریہ سرپسکا کی سرحد پر واقع صنعتی شہر زینسا پاکستانی جنگجوؤں کا گڑھ تھا۔ یہیں سے پاکستانی اور پاکستانی نژاد برطانوی مسلم جنگجو بوسنیائی سرب فوج کے خلاف کارروائیاں کیا کرتے تھے۔ تب جمہوریہ سرپسکا، اس کے گرد و نواح اور ساراژیوو میں گھمسان کی جنگ ہوئی تھی۔ سرب دستوں نے ساراژیوو کا چار سال تک محاصرہ کیے رکھا اور پاکستانی جنگجوؤں نے اسی علاقے کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔
Published: undefined
بوسنیا کی جنگ کے خاتمے کے بعد کچھ پاکستانیوں نے مقامی بوسنیائی خواتین سے شادیاں کر لی تھیں اور وہ آج تک بوسنیا ہی میں رہتے ہیں۔ کچھ پاکستانی اس لڑائی میں مارے بھی گئے تھے اور ان کی اصل تعداد کا کسی کو علم نہیں۔ دوہری شہریت رکھنے والے بہت سے پاکستانی تب واپس برطانیہ چلے گئے تھے۔
Published: undefined
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی تین دوست اس لڑائی میں شرکت کے لیے سابق یوگوسلاویہ آئے تھے۔ ان میں سے دو اب بھی بوسنیا ہی میں رہتے ہیں۔ ان کا تیسرا ساتھی امریکا کی ایک جیل میں 22 سال کی سزائے قید کاٹ رہا ہے۔ وہ بوسنیا سے واپس پاکستان گیا تو اسے حکومت پاکستان نے گرفتار کر کے امریکی حکام کے حوالے کر دیا تھا۔
Published: undefined
بوسنیا میں رہنے والے ایک سابق پاکستانی جنگجو ابو عبداللہ (ان کی درخواست پر اصل نام مخفی رکھا گیا ہے) کا ساراژیوو میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میرا تعلق کراچی سے ہے، ہم تین دوست تھے، جب سابق یوگوسلاویہ میں حالات خراب ہوئے، تو ہم1991 کے آخر میں بوسنیا آئے۔ یہاں جنگ 1992ء میں شروع ہوئی۔ ابھی مسلمان لڑنے کے لیے تیار ہو ہی رہےتھے کہ جنگ شروع ہو گئی تھی۔‘‘
Published: undefined
ابو عبداللہ کا ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہنا تھا، ''سن انیس سو بانوے کے شروع میں یہاں سربوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔ میرے سمیت بہت سے لوگوں نے یہاں جنگ میں حصہ لیا۔ پوری دنیا سے مسلمان یہاں لڑنے کے لیے آئے تھے۔ سن انیس سو بانوے میں تو ساراژیوو سربوں کے ہاتھوں میں جانے ہی والا تھا۔ تب پوری دنیا کے مسلمانوں نے مدد کی اور سربوں کو یہاں پسپائی ہوئی۔ بہت سے پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک سے اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے یہاں آئے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد برطانیہ سے آنے والے پاکستانی نژاد باشندوں کی تھی۔‘‘
Published: undefined
ابو عبداللہ آج تک بوسنیا ہی میں ہیں اور ان کو اب تک اپنے خلاف سفری پابندیوں کا سامنا ہے، '' اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود مجھ پر چند سو کلومیٹر دور واقع ملک کروشیا، جمہوریہ سرپسکا اور سربیا جانے پر تقریباً پابندی ہے۔‘‘
Published: undefined
جس طرح ابو عبداللہ کے بوسنیا میں موجود دوسرے ساتھی کو ان کے ماضی کی بنیاد پر جیل میں ڈالا گیا، اس پر انہیں افسوس ہے، ''امریکا پر نائن الیون کے حملوں کے بعد کئی سابقہ جنگجوؤں کے خلاف بھی بوسنیائی پولیس نے متعدد آپریشن کیے۔ بین الاقوامی قوانین کی کسی بھی خلاف ورزی پر بہت سخت سزا ملتی ہے اور ایک بار جنگجو بن کر کسی دوسرے ملک کی جنگ میں حصہ لینے کی قیمت تو زندگی بھر ادا کرنا پڑتی ہے۔‘‘ ابو عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بعدازاں ان کے بوسنیا میں موجود دوسرے دوست کو رہا کر دیا گیا تھا۔
Published: undefined
ابو عبداللہ کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران فرنٹ لائن پر لڑنے والے ان جیسے غیرملکی ہی ہوتے تھے۔ لیکن اس لڑائی کے بدلے انہیں اپنے خلاف پابندیوں کے علاوہ کیا حاصل ہوا؟ اس بارے میں ابو عبداللہ کہتے ہیں، ''یہاں کی حکومت ہماری عزت کرتی ہے، ہمارا خیال رکھتی ہے۔ سفری پابندیوں کے علاوہ ہمیں کوئی خاص مسئلہ نہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم آج بھی ساراژیوو میں ہیں۔‘‘
Published: undefined
ابو عبداللہ اور ان کے کراچی سے ساتھ آنے والے ایک دوست بظاہر آزاد ہیں لیکن مقامی سکیورٹی ادارے ان پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ حکومت نے ابو عبداللہ کو ایک ریستوراں چلانے کی اجازت دے رکھی ہے اور اب ان کا زیادہ تر وقت اسی ریستوران کو چلاتے ہوئے گزرتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز