سماج

دوستی کسے کہتے ہیں اور سوشل میڈیا نے اس پر کیا اثرات مرتب کیے؟

اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کیا سوشل میڈیا نے دوستی کا معیار تباہ کر دیا ہے تو ممکنہ طور پر فوری جواب اثبات میں ہو گا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے یا یہ نتیجہ جلد بازی میں اخذ کردہ ہے؟

دوستی کسے کہتے ہیں اور سوشل میڈیا نے اس پر کیا اثرات مرتب کیے؟
دوستی کسے کہتے ہیں اور سوشل میڈیا نے اس پر کیا اثرات مرتب کیے؟ 

ماضی سے شدید وابستگی اور نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی دشواریاں اکثر اوقات ایسے ردعمل پر مجبور کرتی ہیں جس کی بنیاد تجزیے کے بجائے جذبات پر استوار ہوتی ہے۔ جب سوشل میڈیا کے دوستی پر اثرات کی بات کی جائے تو بیشتر صورتوں میں یہی جذباتی ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج ہمیں خط لکھنے کا زمانہ بہت سچا محسوس ہوتا ہے لیکن ہزاروں برس قبل سقراط کے لیے گفتگو کی نسبت ”لکھا ہوا حرف" غیر معتبر تھا۔ اب سوشل میڈیا کی دوستیاں ”جعلی" ہیں تو اُس وقت خط لکھنے والے بھی کمزور بندھن میں بندھے تھے۔

Published: undefined

ٹیلی فون کا زمانہ مختصر ہونے کے سبب بھرپور قسم کا ناسٹیلجیا نہ بن سکا۔ آج سے سینکڑوں سال بعد سوشل میڈیا کی حیثیت جو ہو گی سو گی۔ فی الحال ہمیں اس کے دوستی پر اثرات کا جائزہ لینا ہے۔ تو کیا خیال ہے پہلے یہ جاننے کی کوشش نہ کی جائے کہ دوستی ہوتی کیا ہے؟

Published: undefined

دوستی کسے کہتے ہے؟

اس کا بہترین جواب حاصل کرنے کے لیے ہم یونان کا رخ کرتے ہیں۔ ارسطو کے نزدیک دوستی کی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس کی بنیاد ”مفادات" پر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر میں اپنے ایک ایسے کلاس فیلو سے دوستی کر لوں جس کا تعاون میری پڑھائی کے لیے ضروری ہو۔ یہ مفادات مشترکہ نوعیت کے بھی ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ دو لوگ کسی ایک ہی ٹیسٹ کی تیاری کر رہے ہوں۔ لیکن یہ دوستی مفادات کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔

Published: undefined

دوسری وہ جس کی بنیاد ”خوشی" کا جذبہ ہو اور یہ ”مشترکہ سرگرمی" کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ جیسے مل کر ٹینس کھیلنا یا دو افراد کا روزانہ شام کو جم یا ناؤ نوش کی محفل میں جانا۔ ارسطو کے نزدیک ایسی دوستیاں بالعموم نوجوانی کے دور میں ہوتی ہیں۔ یہ تب تک برقرار رہتی ہے جب تک مشترکہ سرگرمیوں کا دلچسپ سفر جاری رہے۔

Published: undefined

اوپر ہم نے دوستی کی جن دو اقسام کا ذکر کیا ان میں کوئی شخص ”بذات خود" اہم نہیں تھا بلکہ اس کی خوبیاں قربت کا باعث تھیں۔ ارسطو کے نزدیک تیسری قسم وہ ہے جب کسی شخص سے اس کی اصل یا ”جوہر" کی بنیاد پر دوستی کی جائے۔ وہ جو کچھ اور جیسا بھی ہو ہمیں عزیز ہو، اس قدر عزیز کہ ہم اس کے لیے اپنے آپ کو بدل سکیں۔

Published: undefined

ارسطو کے نزدیک تیسری قسم ہی اصل اور اعلی دوستی ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ اس نے پہلی دو قسموں کو برا بھلا یا ”غیر حقیقی" کہا ہو۔ اس کے نزدیک مفادات یا خوشی پر مبنی دوستی ابتدائی زینے ہیں جو طے کرتے ہوئے اعلی دوستی کی منزل تک پہنچنا چاہیے۔ ہاں اگر ہم درجہ بندی کرتے وقت دوستوں کو صحیح مقام پر نہیں رکھتے تو یہ خرابی کی بات ہے۔

Published: undefined

ارسطو کے بقول تیسری قسم کے لوگوں سے دوستی غیر مشروط ہوتی ہے۔ اعتماد کا ایسا رشتہ جس میں کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔ یہ دائرہ بہت محدود ہوتا ہے کیونکہ زندگی کا مختصر دورانیہ زیادہ آزمائش کی گنجائش نہیں رکھتا۔ کتنا محدود یہ جاننے کے لیے ہمیں یونان سے برطانیہ کا سفر کرنا ہو گا جہاں مشہور ماہر بشریات رابن ڈنبر ہماری مدد کریں گے۔

Published: undefined

ہماری دوستی کا دائرہ کتنے افراد پر مشتمل ہو سکتا ہے؟

انسانی سماج کے صدیوں پر محیط سفر کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد ڈنبر نے کچھ انتہائی دلچسپ نتائج اخذ کیے جنہیں دنیا بھر میں بہت پذیرائی ملی۔ انسانی رشتوں کو سوشل برین ہائپو تھیسز کے آئینے میں دیکھتے ہوئے ڈنبر کہتے ہیں کہ فرد کے سماجی تعلقات دائروں کی شکل میں بنتے ہیں۔ ہر دائرہ اپنے سے بعد والے دائرے کی نسبت تین گنا بڑا ہوتا ہے۔

Published: undefined

5 افراد پر مشتمل قریبی ترین دوستوں کا ”نہایت محدود حلقہ،" 15 بہترین دوستوں پر مشتمل ”ہمدرد گروہ،" اس کے بعد 50 اچھے دوست، 150 نسبتاً کم قریبی دوست، 500 ایسے افراد جن سے محض جان پہچان کا تعلق ہو اور سب سے بڑا دائرہ تقریباً 1500 افراد پر مشتمل، ایسے لوگ جنہیں دیکھتے ہی ان کے نام ذہن کے پردے پر نمایاں ہو جائیں۔

Published: undefined

سماجی تعلقات کے حوالے سے ڈنبر کے نزدیک ہمارے دماغ کی ساخت ایک مخصوص طرز پر تشکیل پا سکی۔ یہ بنیادی ڈھانچہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ دماغ کی بڑھتی گھٹتی صلاحتیں اس میں معمولی ردوبدل کر سکتی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی انسانی رشتے انہی دائروں میں سفر کرتے ہیں۔

Published: undefined

کیا سوشل میڈیا کی آن لائن سرگرمیوں نے دوستی کو کمزور کیا؟

دراصل سوشل میڈیا کی آمد سے ڈنبر والا 500 اور 1500 والا دائرہ حیران کن حد تک پھیلا ہے۔ محض جان پہچان اور ناموں سے انسیت والے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد ہماری زندگیوں میں اس سے پہلے شامل نہ تھی۔ دوستوں کے یہ دائرے کافی توانائی طلب کرتے ہیں اور یہ ان کے محدود ہونے کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ جیسے ہی دوسرے دائرے پھیلے ویسے ہی بہترین دوستوں کے حصے کا وقت تقسیم ہونے لگا۔ جو لمحات ہمیں بہترین دوستوں کے ساتھ صرف کرنا تھے وہ سوشل میڈیا پر ”کم اہم دوستوں" کی نذر ہونے لگے۔

Published: undefined

کم اہم یا جان پہچان والے دوستوں کی بھرمار کا ایک فائدہ نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ اس سے ہماری دوستیوں یا جان پہچان میں تنوع پیدا ہوا۔ سوشل میڈیا کے سبب بھانت بھانت کے لوگ ہمارے ساتھ ایڈ ہوئے۔ مثال کے طور پر آپ کو نیا موبائل خریدنا ہے تو کتنے ہی مختلف طرح کے مشورے تھوڑی دیر میں آپ کے ٹوئٹر یا فیس بک پر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس آپ کے قریبی دوستوں کا حلقہ کم و بیش ایک جیسی معلومات رکھتا ہے۔

Published: undefined

دوستی کا ایک نہایت اہم پہلو جذباتی وابستگی بھی ہے۔ سوشل میڈیا نے ہماری دوستی کے جذباتی پہلو پر کیا اثرات مرتب کیے؟ PEW ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ٹین ایج نوجوانوں کی 75 فیصد تعداد سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے۔ ان میں سے 83 فیصد کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا دوستوں کی جذباتی کیفیات سے آگاہی اور ان کے اندر جھانکنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

Published: undefined

آپ کی فیس بک پوسٹ یا واٹس ایپ سٹیٹس پر ردعمل دینے یا نظر انداز کرنے والے افراد کا فرق اسی نسبت سے ہو سکتا ہے جو ڈنبر کے دائروں کے اعدادوشمار میں ہے۔ کچھ لوگ محض لائک تک محدود رہتے ہیں یا یہ تکلف بھی نہیں کرتے۔ کچھ لوگ ہمدردانہ کمنٹ کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے دوستوں کا قریبی ترین حلقہ یا اصل دوست واقعی تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ آپ کی ہر ممکنہ مدد کرتے ہیں۔ ان سے مختصر بات ہی آپ کی بیشتر پریشانی ختم کر دیتی ہے۔ گویا سوشل میڈیا نے ”اظہار" کو فوری اور آسان بنا دیا۔ آپ کے دوست محض ایک سٹیٹس کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔

Published: undefined

اظہار کا ایک قرینہ آف لائن دوستی میں بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی آن لائن دوستی میں۔ یہ ہے دوسروں کے سامنے اپنی دوستی کو تسلیم کرنا یا اپنے دوست کو ”اون" کرنا۔ جب آپ بھرے مجمع میں کسی خاص شخص کی طرف لپکتے ہیں تو آپ کے چہرے کے تاثرات اور جپھی ڈالنے کا انداز وہاں موجود لوگوں کے لیے ایک پیغام ہوتا ہے کہ آپ اس تعلق پر فخر کرتے ہیں۔

Published: undefined

دوسری طرف نوجوان سٹوڈنٹس کی زندگی سے ایک مثال لیتے ہیں۔ فرض کیا دو دوستوں کے ساتھ آپ کی ملاقات طے ہے۔ یونیورسٹی لان میں پہنچ کر آپ کو پیاس کا احساس ہوتا ہے۔ آپ نے ایک کو میسج کیا کہ پانی کی بوتل لیتے آنا۔ وہ انکار کر دے۔ آپ کا باہمی تعلق جتنا بھی مضبوط کیوں نہ ہو آپ کو گہرا صدمہ پہنچے گا، اگرچہ درمیان میں پانی کی بوتل جیسی معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو۔ گویا دوستی کے تقاضوں میں دوسروں کے سامنے دوستی کا اظہار بہت اہمیت کا حامل ہے۔

Published: undefined

سوشل میڈیا کے دور میں یہ اظہار جنم دن پر سٹیٹس لگانے سے یا سنیپ چیٹ پر سٹریک کے سو، دو سو یا پانچ سو دن مکمل ہونے پر سٹوری لگانے سے ہوتا ہے۔ یہ ایک عمدہ پیش رفت ہے لیکن اس کے ساتھ کھوکھلی نمائش اور نرگسیت پسندی کا مرض بھی عام ہوا ہے۔ PEW کی مذکورہ رپورٹ میں جب نوجوانوں سے بے جا نمائش کا پوچھا گیا تو 10 میں سے 9 ٹین ایجرز نے یہ شکوہ کیا۔ ان کے خیال میں دوست اپنے بارے میں حد سے زیادہ چیزیں شیئر کرتے ہیں۔ گویا جوہر نمائش میں گم ہونے لگا۔

Published: undefined

اگر دوستی کا لفظ استعمال کرتے ہوئے ہمارے پیش نظر ارسطو کی تیسری قسم (اعلی دوستی) اور ڈنبر کا پانچ افراد والا محدود حلقہ ہو تو ایسا لگتا ہے سوشل میڈیا اس دائرے کا ”معیار" مجروح نہیں کر سکا۔ واٹس ایپ وغیرہ کا استعمال ایسے دوستوں سے ملاقات کے لیے وقت اور جگہ طے کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ جیسے ہی آپ ملتے ہیں آپ کی زندگی میں وہی رمق، وہی جذباتی کیفیت اور بے تکلفی ہوتی ہے جو سوشل میڈیا کے دور سے پہلے تھی۔

Published: undefined

ہاں ایک چیلنج ضرور درپیش ہے کہ ہم ایسے دوستوں کا وقت نسبتاً کم اہم آن لائن دوستوں کو نہ دیں۔ سوشل میڈیا ایپس کے فیچرز ایسے پرکشش ہیں کہ آپ گھنٹوں ان میں کھوئے رہتے ہیں اور وقت کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ اصل مسئلہ معیار کا نہیں مقدار کا ہے۔ ایک بار ہم وقت کی تقسیم میں توازن سیکھ گئے تو سوشل میڈیا سے دوستی کے باب میں کچھ زیادہ شکایتیں نہیں رہیں گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined