سماج

امیر ممالک میں اسلحہ رکھنے کے قوانین کیا ہیں؟

فائرنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات نے دنیا بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ امیر ممالک میں اسلحہ رکھنے کے کیا قوانین ہیں اور لائسنس کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ یہ جانتے ہیں اس رپورٹ میں۔

امیر ممالک میں اسلحہ رکھنے کے قوانین کیا ہیں؟
امیر ممالک میں اسلحہ رکھنے کے قوانین کیا ہیں؟ 

جاپان میں جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم شینزو آبے کی فائرنگ سے ہلاکت نے پوری دنیا میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلحہ رکھنے کے سخت ضوابط ہیں۔ لیکن ماضی میں کئی ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہائی پروفائل کیسز ہو چکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے اس رپورٹ میں ایسے چند ممالک میں اسلحہ رکھنے سے متعلق قوانین کا تجزیہ کیا ہے۔

Published: undefined

جاپان

جاپان میں قانون کے مطابق کسی کے پاس آتشی اسلحہ، تلوار یا تیز دھار آلات رکھنا غیر قانونی ہے۔ جاپان میں اسلحہ کی نجی ملکیت سے متعلق سخت ترین ضابطے موجود ہیں۔ پولیس اور فوج کے علاوہ کسی کو بھی بندوق رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ عام شہریوں کو صرف شاٹ گن اور ایئر رائفلیں رکھنے کی ہی اجازت ہے۔

Published: undefined

یہاں تک کہ جاپان میں ان ہتھیاروں کو خریدنا ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔ بندوق کے ممکنہ مالک کو لازمی طور پر تربیتی کلاسوں میں شرکت کرنا پڑتی ہے اور کم از کم 95 فیصد کی درستگی کے ساتھ تحریری ٹیسٹ اور شوٹنگ رینج ٹیسٹ بھی پاس کرنا ہوتا ہے۔

Published: undefined

درخواست دہندگان کو ذہنی صحت کی جانچ سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد پولیس ان کے خاندانی پس منظر کی جانچ پڑتال بھی کرتی ہے۔ اسلحہ خریدنے کے خواہشمند کے مجرمانہ ریکارڈ بھی جانچے جاتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کا کسی قسم کا کوئی کریمنل ریکارڈ موجود نہیں۔

Published: undefined

اس تمام مشقت کے بعد ملنے والا لائسنس بھی صرف تین سال کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔ اسلحہ کے مالک کو اپنے لائسنس کی تجدید کے لیے ہر تین سال بعد دوبارہ کلاس اور امتحان دینا لازمی ہوتا ہے اور ساتھ ہی پولیس کو سال میں ایک بار اسلحہ کا اندراج اور معائنہ کروانا بھی ضروری ہوتا ہے۔

Published: undefined

شینزو آبے سے قبل، آخری بار پندرہ سال پہلے سن 2007 میں ایک قاتلانہ حملے میں ناگاساکی شہر کے میئر کو قتل کیا گیا تھا۔ اس قتل کے بعد جاپان میں یہ پابندیاں مزید سخت کر دی گئی تھیں اور غیر قانونی طور پر اسلحہ رکھنے پر سزائیں بڑھا دی گئی تھیں۔

Published: undefined

ڈنمارک

چار جولائی کو ہائی لینڈ پارک، الینوائے میں ایسے ہی ایک واقعے میں چھ افراد کی ہلاکت کے بعد امریکی قدامت پسندوں نے، ڈینمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کے شاپنگ سینٹر میں تین جولائی کو ہونے والی فائرنگ کی مثال دی جس میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے، یہ دلیل دی کے بندوق رکھنے سے متعلق طے شدہ سخت قوانین ایسے واقعات کو روکنے میں ناکام ہیں۔ جب کہ ان کے مخالفین کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ڈنمارک میں سن 1994 سے اب تک صرف تین بڑے فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں - دوسری جانب سن 2022 کے دوران امریکہ ایسے 300 سے زائد واقعات جھیل چکا ہے۔

Published: undefined

ڈنمارک میں آتشی اسلحے کو وزارت انصاف کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہاں کے قوانین کے مطابق شہری مکمل طور پر خودکار آتشی اسلحہ نہیں رکھ سکتے۔ نیم خودکار ہتھیاروں اور ہینڈ گنز صرف خصوصی اجازت لے کر ہی رکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی جانچ پڑتال کا عمل بھی جاپان جیسا ہی سخت ہے۔

Published: undefined

نیوزی لینڈ

کرائسٹ چرچ میں سن 2019 میں ایک سفید فام بندوق بردار نے 51 افراد کو ہلاک اور کم از کم 40 کو زخمی کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد حکومت نے ایک ماہ کے اندر کارروائی کرتے ہوئے نیم خودکار ہتھیاروں اور اسالٹ رائفلز پر ملک بھر میں پابندی عائد کر دی۔

Published: undefined

جرمنی

سن 2015 میں پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے تناظر میں، یورپی کمیشن نے اصلاحات کا ایک مسودہ تیار کیا تھا جسے سن 2020 میں جرمنی کے ہتھیاروں کے قوانین میں شامل کیا گیا تھا۔ تب سے حکام کو ملکی انٹیلی جینس سروسز سے درخواست دہندہ کی معلومات لینا ہوتی ہیں۔ بندوق کا پرمٹ جاری کرنے سے پہلے، حکام کو ہر پانچ سال بعد یہ بھی چیک کرنا لازم ہے کہ رجسٹرڈ بندوق کے مالک کو ہتھیار رکھنے کی 'جائز ضرورت‘ ہے یا نہیں۔ اس کا عام طور پر مطلب یہ ہوتا ہے کہ پولیس چیک کرتی ہے کہ آیا بندوق کا مالک کسی شوٹنگ کلب کا رکن ہے اور اس کے پاس شکار کا لائسنس موجود ہے یا نہیں۔

Published: undefined

یہ اقدام انتہا پسندوں کے حملوں کو روکنے کے لیے کافی ہو گا یا یہ بے سود رہا، یہ بحث جاری ہے۔ ٹوبیاس آر - ہناؤ کا مجرم، جس نے سن 2020 میں 9 افراد کو قتل کیا اور نیو نازی اسٹیفن ای - جس نے سن 2019 میں ایک مقامی گورنر والٹر لیوبکے کو قتل کیا تھا، دونوں شوٹنگ کلب کے ممبرز تھے۔

Published: undefined

سوئٹزرلینڈ

سوئٹزرلینڈ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس ممالک میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 8.5 ملین کی آبادی میں 2.3 ملین سے زیادہ آبادی کے پاس اپنی بندوقیں ہیں۔

Published: undefined

سوئٹزرلینڈ میں بندوق کا کلچر بنیادی طور پر اس کی ملیشیا فوج سے جڑا ہوا ہے۔ فوجی سروس تمام مرد شہریوں کے لیے لازم ہے۔ اپنی سروس ختم کرنے کے بعد وہ کام کے لیے استعمال ہونے والی بندوق گھر لے جا سکتے ہیں۔

Published: undefined

سوئٹزرلینڈ یورپی یونین کا رکن نہیں ہے لیکن شینگن زون میں ہے اور اس کا ای یو کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ اس بنیاد پر اس ملک پر بھی ہتھیار رکھنے کے حوالے سے وہی قانون لاگو ہوں گے جو کے شینگن ممالک کے لیے بنائے جائیں گے۔

Published: undefined

برطانیہ اور ناروے

برطانیہ نے ایسے واقعات اور بندوق کی ملکیت کو محدود کرنے کے لیے ایک طویل حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ اب اس ملک میں اسلحہ رکھنے کے سخت ترین قوانین موجود ہیں۔ سن 1987 میں ہنگر فورڈ کے قاتلانہ حملے کے بعد، جس میں 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے، حکومت نے نیم خودکار سینٹر فائر رائفلز کی ملکیت پر پابندی لگانے اور شاٹ گن کے استعمال پر نئی پابندیاں متعارف کرانے کے لیے بڑے اقدامات کیے۔

Published: undefined

سن 1996 میں ڈنبلین پرائمری اسکول کا قتل عام، جس میں 16 بچے اور ایک استاد مارے گئے، برطانیہ میں بندوق رکھنے کے قوانین میں مزید اصلاحات کا باعث بنا۔

Published: undefined

ناروے میں صورتحال قدرے مختلف نظر آتی ہے۔ سن 2011 میں ایک دہشت گردانہ حملے میں 77 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کی ایک دہائی بعد سن 2021 حملے میں استعمال ہونے والے نیم خودکار ہتھیاروں پر پابندی لگا دی گئی۔ ناروے میں اب بھی دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں آتشی اسلحے کی ملکیت کی شرح بہت زیادہ ہے لیکن اسلحہ سے متعلق تشدد کے واقعات کی شرح کافی کم ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined