جرمن میڈیا ماضی میں حماس کو 'شدت پسند اسلامی تنظیم‘ قرار دیتا تھا لیکن اسرائیل اور فلسطین کے مابین جاری موجودہ تنازعے میں مغربی میڈیا اس تنظیم کو 'دہشت گرد‘ لکھ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین، زیادہ تر مغربی ممالک اور امریکا حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
Published: undefined
مغربی ممالک میں سے صرف ناروے اور سوئٹزرلینڈ ہی ایسے ممالک ہیں، جنہوں نے اب تک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا اور سخت غیر جانبدار پالیسی اختیار کرتے ہوئے حماس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کر رکھے ہیں۔
Published: undefined
حماس کا وجود سن 1980 کی دہائی میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت حماس یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینی جماعتوں کے اتحاد 'تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی مخالفت میں وجود میں آئی تھی۔
Published: undefined
حماس کے قیام کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں اسرائیلی حکومت نے اسے مالی معاونت فراہم کی تھی تاکہ یاسر عرفات اور پی ایل او کا زور توڑا جا سکے۔ تاہم حماس اور اسرائیل دونوں ہی ایسے دعووں کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
Published: undefined
پی ایل او کے برعکس حماس اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔ تنظیم کے ایمبلم (علامت) میں یروشلم کے قبة الصخرہ کا سنہری گنبد بھی شامل ہے اور اس پر موجود نقشے میں اسرائیل، غزہ اور ویسٹ بینک سمیت تمام علاقوں کو فلسطینی ریاست کے طور پر بھی دکھایا گیا ہے۔
Published: undefined
یاسر عرفات نے سن 1993 میں اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ قیام امن کا اعلان کیا، جس کے بعد سن 1987 میں شروع ہونے والے پہلے انتفادہ کا اختتام ہوا۔ حماس نے امن عمل تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اسرائیل کے خلاف عسکری کارروائیاں جاری رکھیں۔
Published: undefined
سن 2006 کے عام انتخابات میں حماس نے غزہ پٹی میں اکثریت حاصل کی اور بعد ازاں 2007 میں فتح اور حماس کے مابین پرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں غزہ پٹی پر قبضہ کر لیا۔ تب سے مغربی کنارے پر محمود عباس کی قیادت میں فتح پارٹی کا کنٹرول ہے اور غزہ بدستور حماس کے کنٹرول میں ہے۔
Published: undefined
حماس نے غزہ پٹی سے اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ اسے 'اپنا دفاع‘ قرار دیتی ہے۔ اس تنظیم اور اسرائیل کے مابین سن 2008، 2012 اور 2014 میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔
Published: undefined
غزہ پٹی کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے۔ مصر، اسرائیل اور ساحلی علاقوں کی سخت ترین نگرانی کے باعث غزہ پٹی کا دنیا سے رابطہ بالکل منقطع ہے۔ زبوں حال معیشت کے باعث غزہ پٹی کے زیادہ تر رہائشی غربت کا شکار ہیں اور ان کا گزر بسر غیر ملکی امداد پر ہے۔
Published: undefined
حماس نے رہائشی عمارتوں میں اپنی پوسٹیں بنا رکھی ہیں، جہاں سے وہ اکثر اسرائیل پر راکٹ حملے کرتی ہے، جسے مقامی آبادی کو 'انسانی ڈھال‘ کے طور پر استعمال کرنے کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں حماس نے مصر کے ساتھ متصل سرحد پر غزہ پٹی میں اسلحہ سمگل کرنے کے لیے کئی خفیہ سرنگیں بھی کھود رکھی ہیں۔ تاہم مصری حکومت بھی حماس کی سرگرمیاں روکنے کے لیے کافی متحرک ہے۔
Published: undefined
قطر حماس کا سب سے اہم اتحادی اور اسے سب سے زیادہ مالی معاونت فراہم کرنے والا ملک ہے۔ قطری امیر شیخ حماد بن خلیفہ الثانی سن 2012 میں حماس حکومت سے ملاقات کرنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ تھے۔ اب تک قطر حماس کو 1.8 بلین امریکی ڈالر کے مساوی مالی امداد فراہم کر چکا ہے۔
Published: undefined
دوسری جانب اسرائیل کو امید ہے کہ قطر بھی جلد ہی کئی دیگر عرب ممالک کی طرح امریکی ثالثی میں طے پانے والے 'معاہدہ ابراہیمی‘ پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لے گا۔حماس کو ترکی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملوں سے کچھ پہلے ہونے والے مذاکرات میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کی سیاسی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
Published: undefined
اس کے علاوہ حماس کو کئی غیر ریاستی اداروں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جرمن جریدے 'ڈیئر اشپیگل‘ کے مطابق حالیہ برسوں میں جرمنی میں موجود کئی تنظیموں کی جانب سے بھی حماس کو مالی امداد کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
گزشتہ دنوں کے دوران غزہ پٹی سے اسرائیل کی جانب داغے گئے راکٹوں کی تعداد غیر معمولی رہی۔ رواں ہفتے منگل کے روز حماس نے بتایا کہ اس تنظیم نے محض چند منٹوں میں اسرائیل پر 130 راکٹ داغے۔ اسرائیلی ایئر ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم نے ان میں سے زیادہ تر کو ناکارہ بنا دیا۔ تاہم اس دفاعی نظام پر آنے والا خرچہ حماس کے راکٹوں سے کہیں زیادہ ہے۔
Published: undefined
اسرائیلی فوج کے مطابق جمعے کے روز غزہ پٹی سے اسرائیل کی جانب 1800 سے بھی زیادہ راکٹ فائر کیے گئے۔
Published: undefined
حماس کئی برسوں سے ایران کے فراہم کردہ راکٹوں پر انحصار کرتی رہی ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں میزائل ٹیکنالوجی سے متعلق امور کے ماہر فابیان ہنز نے جرمن عوامی نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کو بتایا کہ غزہ میں سرگرم عسکری گروپوں نے اپنے پاس موجود راکٹوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیا ہے، جس کی تصدیق اسرائیلی میڈیا نے بھی کی ہے۔
Published: undefined
رواں ہفتے یروشلم پوسٹ نے اسرائیلی خفیہ اداروں کے حوالے سے لکھا کہ حماس کے پاس پانچ سے چھ ہزار راکٹ ہیں۔ اسلامک جہاد نامی گروپ، جو حماس کے تعاون سے سرگرم ہے، کے پاس بھی قریب آٹھ ہزار راکٹس ہیں۔
Published: undefined
ہنز کے مطابق غزہ میں ایرانی راکٹس سوڈان اور مصر کے ذریعے سمگل کیے جاتے تھے۔ تاہم سن 2019 میں سوڈان سے عمر البشیر کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ کام مشکل ہو چکا ہے۔ کہا جاتا ہے حماس اب بیرونی تعاون کے ساتھ اپنے زیادہ تر میزائل غزہ پٹی ہی میں بنا رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined