جو بائیڈن اگر نئے صدر منتخب ہو گئے تو وہ اٹہتر سال کی عمر میں صدارتی حلف لینے والے امریکا کے معمر ترین صدر قرار پائیں گے۔ لیکن اگر صدر ٹرمپ دوبارہ جیت جاتے ہیں تو چوہتر برس کی عمر میں وہ بھی ملک کے سب سے زیادہ عمر والے صدر کا ریکارڈ قائم کر سکتے ہیں۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
اس الیکشن میں دونوں امیدواروں کی عمر پر کافی بحث ہوئی۔ اپنے شوبز کے تجربے اور رنگین مزاجی کے باعث ڈونلڈ ٹرمپ قدرے دلچسپ امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور ان کے جلسوں اور ریلیوں میں جوش و خروش نظر آیا۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
ان کی نسبت جو بائیڈن قدرے ضعیف رہنما کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ وہ امریکی سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں اور کوئی نصف صدی سے واشنگٹن کے ایوانوں میں متحرک رہے ہیں۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
ان کی پیدائش ریاست پینسلوینیا کی شہر سکرینٹن میں ہوئی۔ پچپن میں گھر والے ریاست ڈیلاویئر متقل ہوگئے۔ انہوں نے ۱۹۷۲میں وہاں سے امریکی سینٹ کا اپنا پہلا الیکشن جیتا۔ اور پھر بار بار جیتتے چلے گئے۔ انہوں نے ۱۹۸۸ اور پھر ۲۰۰۸ امریکی صدارت کے لیے کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
جو بائیڈن نے اپنی ذاتی زندگی میں بارہا صدمے دیکھے ہیں۔ سن ۱۹۷۲ میں سینٹ کا اپنا پہلا الیکشن جیتتنے کے فوری بعد ان کی اہلیہ اور چھوٹی بچی ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ اس ایکسیڈینٹ میں ان کے دو لڑکے زخمی ضرور ہوئے لیکن بچ گئے۔ جو بائیڈن کو اس وقت اپنی رکنیت کا حلف ہسپتال سے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے دوران لینا پڑا تھا۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
پھر سن ۲۰۱۵ میں ان کے ایک ۴۶ سالہ صاحبزادے بیو بائیڈن کا دماغی کینسر کے باعث انتقال ہوگیا۔ جو بائیڈن کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا کیونکہ ان کے صاحبزادے مقامی سیاست کے ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھے جا رہے تھے اور سن ۲۰۱۶ میں ریاستی گورنر کے عہدے کے الیکشن کی تیاری کررہے تھے۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
ڈیموکریٹ ووٹرز کی نظر میں جو بائیڈن جس انداز میں نجی زندگی میں ان سانحات سے نمٹے، اس سے ان کی ہمت اور حوصلے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے بارہا اپنے ان تجربات کا ذکر کیا اور امریکا کے نظام صحت میں اصلاحات پر زور دیا۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
صدر ٹرمپ کی نسبت جو بائیڈن کو ایک نسبتا ملنسار اور عوامی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ عوام میں اپنے جوش خطابت کے لیے اتنے مشہور نہیں جتنا اپنی خوش اخلاقی اور لوگوں میں گھل مل جانے کے لیے۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
لیکن اس سال انہیں ان کی یہ خوبی اس وقت کچھ بھاری پڑگئی جب انتخابی مہم کے دوران کچھ خواتین کی طرف سے ان پر غیراخلاقی حرکتوں کے الزامات لگائے گئے۔ جو بائیڈن نے ان سے انکار کیا اور کہا کہ خواتین کے ساتھ ان کے بےتکلفانہ رویے کو غلط رنگ دے کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
صدر ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن عالمی سفارتکاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ تین بار سینٹ کی طاقتور امور خارجہ سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ سن ۲۰۰۸ میں جب وہ صدر باراک اوباما کے نائب صدر کے امیدوار قرار پائے تو اس میں ان کے اس تجربے کا بڑا عمل دخل تھا۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
صدر اوباما کی طرح جو بائیڈن عالمی سطح پر امریکا کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ گمبھیر تنازعات کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے سفارتکاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ صدر منتخب ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اوباما دور کا ایٹمی معاہدہ بحال کرنے کی کوشش کریں۔ ریپبلکن پارٹی اور صدر ٹرمپ کی نظر میں ان کی یہ کمزور لیڈر کی نشانی ہے۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM IST