اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پیر کے دن ملزم ظاہر ذاکر جعفر کو پیش کیا گیا۔ ابتدائی عدالتی کارروائی کے بعد جج نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں دو دن کی توسیع کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کو اٹھائیس جولائی کو عدالت میں دوبارہ پیش کیا جائے۔
Published: undefined
جعفر پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے نور مقدم کو قتل کیا ہے۔ قتل کی یہ واردات بیس جولائی کو اسلام آباد کے پوش علاقے سیکٹر ایف سیون/ فور میں رونما ہوئی تھی۔
Published: undefined
نور مقدم پاکستان کے سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی تھیں اور والد کی استدعا پر ہی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ظاہر ذاکر جعفر پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ تین سو دو کے تحت قتل کا مقدمہ قائم کیا ہے۔
Published: undefined
ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق ملزم نے ستائیس سالہ نور مقدم کو گولی ماری اور بعد ازاں انتہائی سفاکی اور بے دردی سے اس کا گلا کاٹ کر جسم سے الگ کر دیا۔ اس لزرہ خیز واقعے کے رونما ہونے کے بعد پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔
Published: undefined
مقامی میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا میں بھی اس بہیمانہ کارروائی کی سخت مذمت کی جا رہی ہے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات دراصل 'استثنا کے کلچر‘ کا نتیجہ ہیں۔
Published: undefined
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی سابق ممبر یاسیمن لہری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''ایک مرد جس نے ایک خاتون وکیل پر چاقو سے بارہ سے بھی زائد مرتبہ وار کیا، اسے حال ہی میں عدالت نے چھوڑ دیا۔ خواتین پر تشدد کرنے والوں کو اس سے کیا پیغام جاتا ہے؟‘‘
Published: undefined
خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر آتا ہے، اس جنوب ایشیائی ملک میں جنسی نوعیت کے جرائم اور گھریلو تشدد کے واقعات میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں خواتین کے حقوق کی سرکردہ علمبرار اور خود جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر مرد خواتین کو مارنے پیٹنے کو تشدد کی زمرے میں لاتے ہی نہیں۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مائی نے مزید کہا، ''جو خواتین کے خلاف تشدد کرتے ہیں، انہیں قانونی نتائج کا کوئی ڈر ہوتا ہی نہیں۔‘‘
Published: undefined
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مسائل کی وجہ پدرسری رویے ہیں، جو خواتین کے خلاف تشدد کو اکساتے بھی ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی فیمینسٹ مہناز رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خواتین کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ مردوں کے تابع رہیں۔‘‘ ان کے مطابق جب خواتین اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
Published: undefined
لاہور کی رہائشی انسانی حقوق کی کارکن شازیہ خان اس تمام معاملے کا معاشرتی اور مذہبی حوالوں سے بھی تجزیہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہبی بنیادیں دراصل پدرسری نظام کو تقویت دیتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی بنیاد پر انتہا پسند مذہبی تعلیمات کی تشریح کرتے ہوئے خواتین کے خلاف تشدد کو جائز سمجھتے ہیں۔
Published: undefined
شازیہ خان کے بقول پاکستان وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں 'خواتین مخالف‘ بیانات دیے ہیں، جن کی وجہ سے خواتین کے خلاف تشدد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، جو ایک غلط بات ہے۔عمران خان نے حال ہی میں کہا تھا کہ اگر خواتین 'مناسب‘ لباس نہیں پہنیں گی تو اس کا مردوں پر منفی اثر پڑے گا۔ اس بات کو پاکستان کے زیادہ تر حلقوں نے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔
Published: undefined
پاکستان میں کچھ ایسے قدامت پسند حلقے بھی ہیں، جو خواتین کے خلاف امتیازی رویوں، جنسی حملوں اور تشدد کی وجہ 'مغربی اقدار‘ کو اپنانے سے جوڑتے ہیں۔ صائمہ راحیل قاضی نے اپنے اس مفروضے پر دلالت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 'جیسا کہ نور مقدم کیس کے ملزم کو مغرب زدہ لا دین‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
صائمہ کے مطابق پاکستان میں مغربی اقدار کی تقلید اور فیملی کا کمزور ہوتا ہوا نظام اس صورتحال کا ذمہ دار ہیں۔ قانون دان کشور زہرہ بھی ان کے اس خیال سے متفق ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان قسم کے جرائم کی روک تھام کے لیے فیملی سسٹم کی بحالی ناگزیر ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined