اٹھائیس اکتوبر کو کشمیر کے کلگام ضلع میں جن پانچ مزدوروں کو قتل کیا گیا تھا، ان کا تعلق مغربی بنگال سے تھا۔ اس واقعے میں ایک مزدور ظہور دین زندہ بچ گیا تھا۔ وہ سری نگر کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ اس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ہلاک کیے جانے والے دیگر مزدوروں کے ساتھ وہ بھی ایک کرائے کے کمرے میں رہتا تھا۔
Published: undefined
ظہور دین نے بتایا کہ وہ لوگ رات کے کھانے کی تیاری کر رہے تھے، جس وقت مسلح افراد ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور انہیں اپنے ساتھ نیچے لے گئے، ''اس وقت اندھیرا تھا اور میری نظر کمزور ہے۔ ہم خوفزدہ تھے اور ہم ان کے ساتھ نیچے چلے گئے۔ مسلح افراد چند سو میٹر دور اپنے ساتھ ایک بیکری کی جانب لے گئے اور پھر انہوں نے ہم پر فائرنگ کر دی‘‘۔ ظہور دین نے مزید بتایا کہ اسے ہاتھ اور پیر پر چار گولیاں لگیں اور پھر فائرنگ کی آواز سن کر وہاں پہنچنے والے افراد نے اسے زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا۔
Published: undefined
دوسری جانب جموں وکشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ نے بتایا کہ مزدوروں کو ہلاک کرنے والے شدت پسندوں کی شناخت کر لی گئی ہے اور انہیں جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے زیادہ تفصیل نہیں بتائی۔
Published: undefined
پانچ اگست کو نئی دہلی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اس خطے میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس کے بعد حکام نے مواصلاتی رابطوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور کسی ممکنہ بد امنی کے خدشے کے تحت ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان میں سے بعض کو رہا بھی کر دیا گیا ہے۔
Published: undefined
پولیس کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیمیں دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے مزدوروں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ اس بیان میں واضح کیا گیا کہ یہ اس خطے میں کام کرنے والے ہزاروں غیر کشمیریوں کو نکالنے کی ان کی ایک نئی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
یہ مزدور زیادہ تر کاشت کاری اور تعمیراتی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں کے دوران کیے گئے حملوں میں کم از کم گیارہ غیر کشمیری مزدور مارے جا چکے ہیں جبکہ کئی سو افراد نے وادی بھی چھوڑ دی ہے۔
Published: undefined
دوسری جانب روئٹرز سے بات کرنے والے کئی دیہاتیوں نے بتایا کہ انہیں اس واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے بھی خوف آتا ہے۔ جس سڑک پر ان مزدوروں کو قتل کیا گیا، وہاں پر غلام نبی کی گوشت کی دکان بھی ہے۔ ان کے بقول،''یہاں صرف شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے پاس ہتیھار ہیں۔ ہم عام شہریوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں لیکن ہم بدستور متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز