ایران میں خواتین کے نقاب کا معاملہ ایک طویل عرصے سے کسی نہ کسی صورت میں زیربحث رہا ہے۔ کئی مرتبہ تو کچھ خواتین نے انسٹاگرام پر جان بوجھ کر نقاب کے بغیر تصاویر شائع کر کے ایک عوامی بحث تک پیدا کر دی۔
Published: undefined
ابھی حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ میں ایک خاتون بغیر روایتی لباس کے نظر آئی تو حکام نے ویڈیو پروڈیوسرز کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سوال یہ ہے کہ ایران میں خواتین کے نقاب کا معاملہ اتنا حساس کیوں ہے؟
Published: undefined
شہرام کرامی، مغربی ایرانی شہر کیرمان شاہ میں سرکاری وکیل ہیں۔ کرامی کے مطابق کسی فیشن سے جڑے اشتہارت میں کسی خاتون کا ننگے سر ہونا ایک 'غیراخلاقی‘ بات ہے۔ انہوں نے ابھی حال ہی میں ایک ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد اس کے پروڈیوسرز اور تقسیم کاروں کے خلاف سکیورٹی اور عدالتی حکام کو متحرک کیا۔ اب تک اس ویڈیو سے جڑے چار افراد کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں۔
Published: undefined
ان گرفتاریوں سے خواتین کے لباس کے حوالے سے سخت اور قدامت پسند ضوابط پر عمل درآمد سے متعلق حکومتی سنجیدگی بھی واضح ہوتی ہے۔ حکومتی نقطہء نگاہ کے مطابق ایرانی 'اسلامی معاشرتی‘ ضوابط پر عمل درآمد ضروری ہے۔ ایرانی سیاسی مبصرین کے مطابق سن 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کا ایک مخصوص کردار 'ایرانی نظریاتی معاشرے میں ایک ستون‘ سمجھا جاتا ہے۔
Published: undefined
انقلابی رہنما آیت اللہ خمینی نے خواتین کے معتدل لباس پر زور دیا تھا۔ فروری 1979 میں ایک انٹرویو میں خمینی نے کہا تھا، ''ان خواتین نے جو میک آپ کرتی ہیں اور جن کے بال اور جسم نظر آتے ہیں، انہوں نے شاہ کے خلاف جدوجہد میں حصہ نہیں لیا تھا۔‘‘
Published: undefined
خمینی کا مزید کہنا تھا، ''ایسی خواتین نے کوئی ٹھیک کام نہیں کیا۔ انہیں خبر نہیں کہ یہ کارآمد کیسے ہو سکتی ہیں، نہ معاشرے کے لیے اور نہ سیاسی اعتبار سے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو ظاہر کر کے لوگوں کی توجہ خراب کرتی ہیں اور انہیں مشتعل کرتی ہیں۔‘‘
Published: undefined
اس کے فوری بعد یہ واضح ہو گیا تھا کہ ایران کے انقلابی سخت قدامات پسند معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے خاندانی امور سے متعلق ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی سکیولر عدالتوں کی ہدایات کو بھی ختم کر دیا تھا اور خاندانی امور کو 'روحانی رہنماؤں‘ کے دائرہ اختیار میں دے دیا۔
Published: undefined
Published: undefined
بہت سی خواتین خمینی کے اس بیان کو مسترد کرتی ہیں۔ معروف ایرانی محقق برائے سیاسیات نگار متحدہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں ان دعووں کو رد کیا۔ اپنی تازہ کتاب 'وِسپر ٹیپس‘، جو امریکی صحافی کیٹ میلیٹ کے ایرانی معاشرے کے مشاہدے پر مبنی ہے، میں خواتین سے متعلق تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں نگار متحدہ بتاتی ہیں کہ ایرانی خواتین وکلاء، طالبات اور دیگر خواتین ورکرز اپنے حقوق سے متعلق کیا کہتی ہیں۔ متحدہ نے اپنی اس کتاب میں ایران میں خواتین کے حقوق کی تحریکوں کا یہ نعرہ بڑے واضح انداز سے لکھا ہے، 'انقلاب ایک قدم پیچھے جانے کا نام نہیں‘۔
Published: undefined
خمینی اور ان کے حامی تاہم خواتین کے حقوق کو غیراہم سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایرانی خواتین مغرب کی لبرل اور معاشرتی دھارے میں ضم خواتین کا الٹ ہیں۔ انقلابی نہ صرف ایران کو امریکی سیاسی اور اقتصادی اثر سے نکالنا چاہتے تھے، بلکہ وہ وہاں 'علاقائی اسلامی ثقافت‘ کی تخلیق چاہتے تھے۔
Published: undefined
ایران میں خواتین کا نقاب مغربی طرز زندگی کے رد کے ایک استعارے کی طرح ہے۔ امریکی ماہر سیاسیات حمیدہ سدغنی ایرانی خواتین اور سیاست سے متعلق سن 2007 کی رپورٹ میں لکھتی ہیں، '' ایران میں اسلامی انقلاب خواتین کی جنس پر لڑائی سے جڑا سیکچوئل کاؤنٹر ریولوشن ہے۔‘‘
Published: undefined
سدغنی کے مطابق ایرانی معاشرے میں خواتین کے نقاب کو مغرب مخالف رویے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سن 1979 میں انقلاب کے وقت 'نقاب پہنو ورنہ تمہارے سر پر مکا ماروں گا‘‘ اور 'بے نقاب مردہ باد‘ جیسے نعرے اسی رویے کے غماز ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
خمینی نے خواتین کو برقع پہننے کا مشورہ 1979 میں دینا شروع کیا اور پھر 1983 میں ایرانی پارلیمان نے قانون بھی منظور کر دیا جس کے مطابق عوامی سطح پر نقاب نہ کرنے والی خواتین کو 74 کوڑے مارے جائیں یا انہیں دو ماہ تک جیل بھیج دیا جائے، جیسی سزائیں رکھی گئیں۔ لازمی نقاب ایران کے 'انقلابی اسلامی سماج‘ میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح تھا اور اس پر عمل نہ کرنے والی خواتین کو 'مغربی بیسوائیں‘ تک کہا جاتا تھا۔
Published: undefined
تاہم اب ایران میں ایسے مردوں اور خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو ایرانی مذہبی قیادت کے ان نظریات کو رد کرتے ہیں۔ متحدہ کے مطابق اب خواتین جان بوجھ کر ان ضوابط کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے، نقاب نہیں کرتیں۔ ’’وہ اپنی جسم پر اپنے حق کے دوبارہ حصول کی کوشش میں ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز