اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بیشتر ممالک نے ایک بار پھر سے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں پر عائد کی گئی پابندیوں کو فوری طور پر ختم کر دیں۔ اس میں خواتین امدادی کارکنوں پر عائد کی گئی حالیہ پابندیوں کے اقدام بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
جمعے کے روز سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد 11 اراکین کی نمائندگی کرتے ہوئے جاپانی سفیر اشیکانے کیمی ہیرو نے کہا، ’’ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف اپنے تمام جابرانہ اقدامات کو فوری طور پر واپس لیں‘‘۔
Published: undefined
ان ممالک نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ’’خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا احترام کریں، اور سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور عوامی جگہوں سمیت افغان معاشرے کے تمام پہلوؤں میں ان کی مکمل، مساوی اور بامعنی شرکت اور شمولیت کو یقینی بنائیں‘‘۔ البتہ، روس، چین، گھانا اور موزمبیق جیسے سلامتی کونسل کے اراکین نے اس بیان کی حمایت نہیں کی۔
Published: undefined
متحدہ عرب امارات کی سفیر لانا نصیبیح نے جاپان کے ساتھ مل کر اس اجلاس کا مطالبہ کیا تھا۔ اجلاس کے بعد انہوں نے کہا کہ ’اہم نکات‘ یہ تھے کہ افغانستان میں انسانی بنیادوں پر کام ضروری ہے اور سلامتی کونسل طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے پرعزم بھی ہے تاکہ ’’زمینی صورتحال کو بہتر کرنے میں مدد کرنے کی کوششیں کی جا سکیں‘‘۔
Published: undefined
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی روزا اوتن بائیفا نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ طالبان کی حالیہ پابندیاں ان کی ماضی کی ان یقین دہانیوں کے بالکل برعکس ہیں کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کا احترام کریں گے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ فی الوقت اس کے جو سب سے برے اثرات مرتب ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی وجہ سے سردیوں کے دوران انسانی امداد کی فراہمی نہیں ہو پا رہی ہے۔
Published: undefined
نارویجن ریفیوجی کونسل، کیئر، ورلڈ ویژن اور اسلامک ریلیف سمیت کئی بین الاقوامی امدادی اداروں نے 24 دسمبر سے افغانستان میں ان وجوہات کے سبب اپنا کام معطل کر رکھا ہے کہ وہ اپنی ٹیموں میں خواتین کے بغیر مقامی آبادی کو مؤثر طریقے سے خدمات فراہم نہیں کر سکتے۔ تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کی ایجنسیاں افغانستان میں اپنا کام کرتی رہیں گی۔
Published: undefined
پناہ گزینوں سے متعلق ناروے کی کونسل کے سربراہ جان ایجلینڈ نے اسی ہفتے افغانستان کا دورہ کیا تھا، تاکہ خواتین امدادی کارکنوں پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے کسی طرح سے طالبان کو آمادہ کیا جا سکے۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’میں نے کابل میں متعدد طالبان رہنماؤں، متعدد وزراء، کئی مذہبی اسکالرز اور طالبان کی سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ حیران کن بات تو یہ ہے ان میں سے کئی ایک میری اس بات سے متفق ہیں کہ امدادی تنظیم کے طور ہمارے لیے اپنی خواتین ساتھیوں کے ساتھ ہی کام کرنا ممکن ہو سکے گا‘‘۔
Published: undefined
جان ایجلینڈ نے تاہم کہا کہ اس مسئلے پر فی الوقت سخت گیر طالبان کو "برتری حاصل ہے" تاہم کچھ طالبان رہنما خواتین پر عائد پابندیوں سے ہونے والے نقصانات کو بھی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ خواتین پر عائد تعلیم کی پابندی بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوگی‘‘۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز